5-1اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کردی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہوجاؤ گی چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انھیں کی طرف انھیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انھیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ 5-2اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ 5-3یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہوگا، حدیث میں آتا ہے، ' جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری)