1 اسکا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہوجائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ) 47۔ محمد:31) ہم تمہیں ضرور آزمائینگے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ) 3۔ آل عمران:179) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔