78-1ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب و تجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے (اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ) 28۔ القصص:78) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھٰذَا لِي)(41۔ فصلت:50) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کمائی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کرلیتا۔ 78-2یعنی قوت اور مال کی فروانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اسلئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔ 78-3یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کرلیا جاتا ہے۔