37-1یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔ 37-2اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا 37-3ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اسکے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔