59-1یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورة دخان میں فرمایا کہ ' ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا ' (أیسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورة شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آگئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چناچہ حضرت موسیٰ ؑ کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔