55-1بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا (ان اللہ زوی لی الارض، فرایت مشارقھا ومغاربھا، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا)(صحیح مسلم) " اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا " پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی " حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر و شرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ 55-2یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ 55-3اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔