2-1بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورة النساء آیت۔15میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورة نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کردی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ 2-2اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔ 2-3تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بدقسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درآنحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔