18۔ 1 بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کرسکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا (من فی السموات) سے مراد فرشتے ہیں ومن فی الارض سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں (وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ) 17۔ الاسراء:44) سورة بنی اسرائیل۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انھیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے (حم سجدہ 37) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورة الرعد اور النحل 47، 48 میں بھی کیا گیا ہے۔ 18۔ 2 یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ 18۔ 3 یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انھیں بھی مجال انکار نہیں۔ 18۔ 4 کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔