59۔ 1 اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب ؑ اور حضرت لوط ؑ وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انھیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انھیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہوجاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنادیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہوجائے گی اور تم اپنے کفر وعناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہوچکا ہے۔