21۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس ' کل ' کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر) 21۔ 2 یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔ 21۔ 3 اذ یا تو ظرف ہے اعثرنا کا، یعنی ہم نے انھیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ 21۔ 4 یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جاکر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انھیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنادی جائے۔ 21۔ 5 جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ 21۔ 6 یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔ اللہ تعالیٰ بہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال ؑ کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کردیا جائے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔