تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

44۔ 1 یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح وتحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد ؑ کے بارے میں آتا ہے (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ) 38۔ ص:18) ' ہم نے پہاڑوں کو داؤد ؑ کے تابع کردیا ' بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں۔ ' بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ) 2۔ البقرۃ:74) اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر 3583) مکہ میں ایک پتھر تھا جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم۔ 1782) ان آیات و صحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہر چیز پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وفی کل شیء لہ آیۃ۔ تدل علی انہ واحد۔ ہر چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.