78۔ 1 شَیْئًا، نکرہ ہے تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بدبختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ 78۔ 2 تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کرسکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ 78۔ 3 یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان عضا وجوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ ان سے اللہ کی عبادت و اطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے حدیث میں آتا ہے ' میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ تنبیہ: اس حدیث کا بعض لوگ غلط مطلب لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت و عباد اللہ کے لیے خالص کرلیتا ہے تو اس کا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے کے لیے ہوتا ہے، وہ اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہی چیز ہوتی ہے جس کو شریعت نے روا رکھا ہے وہ ان کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔