17۔ 1 بقدرھا وسعت کے مطابق کا مطلب ہے نالے یعنی وادی دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھرتا ہے جس طرح قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ 17۔ 1 اس جھاگ سے جب پانی اوپر آجاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہوجاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہوجانے والا ہے۔ 17۔ 2 یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہوجاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔ 17۔ 3 یعی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ ناکارہ اور ختم ہوجاتا ہے۔ 17۔ 4 یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔ 17۔ 5 یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرۃ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔ 17۔ 6 یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورة بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورة نور، آیات 39، 40 میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر