بلکہ جادو کے پیچھے پڑ گئے اور خود حضور پر جادو کیا جس کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب باری تعالیٰ نے دی اور اس کا اثر زائل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاء ملی۔ توراۃ سے تو حضور کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے اس لیے کہ وہ تو اس کی تصدیق والی تھی تو اسے چھوڑ کر دوسری کتابوں کی پیروی کرنے لگے اور اللہ کی کتاب کو اس طرح چھوڑ دیا کہ گویا کبھی جانتے ہی نہ تھے نفسانی خواہشیں سامنے رکھ لیں اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ راگ باجے کھیل تماشے اور اللہ کے ذکر سے روکنے والی ہر چیز آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ»[ 2-البقرہ: 102 ] میں داخل ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس سیدنا فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک انگوٹھی تھی جب آپ علیہ السلام بیت الخلاء جاتے تو اپنی بیوی جرادہ کو دے جاتے جب سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا وقت آیا اس وقت ایک شیطان جن آپ علیہ السلام کی صورت میں آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کے پاس آیا اور انگوٹھی طلب کی جو دے دی گئی اس نے پہن لی اور تخت سلیمانی پر بیٹھ گیا تمام جنات وغیرہ حاضر خدمت ہو گئے حکومت کرنے لگا ادھر جب سلیمان علیہ السلام واپس آئے اور انگوٹھی طلب کی تو جواب ملا تو جھوٹا ہے انگوٹھی تو سلیمان لے گئے آپ علیہ السلام نے سجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ان دنوں میں شیاطین نے جادو، نجوم، کہانت، شعر و اشعار اور غیب کی جھوٹی سچی خبروں کی کتابیں لکھ لکھ کر سلیمان علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کرنی شروع کر دیں آپ علیہ السلام کی آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا آپ پھر تخت و تاج کے مالک ہوئے عمر طبعی کو پہنچ کر جب رحلت فرمائی تو شیاطین نے انسانوں سے کہنا شروع کیا کہ سلیمان کا خزانہ اور وہ کتابیں جن کے ذریعہ سے وہ ہواؤں اور جنات پر حکمرانی کرتے تھے ان کی کرسی تلے دفن ہیں چونکہ جنات اس کرسی کے پاس نہیں جا سکتے تھے اس لیے انسانوں نے اسے کھودا تو وہ کتابیں برآمد ہوئیں بس ان کا چرچا ہو گیا اور ہر شخص کی زبان پر چڑھ گیا کہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت کا راز یہی تھا بلکہ لوگ سلیمان علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہو گئے اور آپ علیہ السلام کو جادوگر کہنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو عقدہ کشائی کی اور فرمان باری تعالیٰ نازل ہوا کہ جادوگری کا یہ کفر تو شیاطین کا پھیلایا ہوا ہے سلیمان علیہ السلام اس سے بری الذمہ ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ اس نے کہا عراق سے! فرمایا عراق کے کس شہر سے؟ اس نے کہا کوفہ سے! پوچھا وہاں کی کیا خبریں ہیں؟ اس نے کہا وہاں باتیں ہو رہی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ انتقال نہیں کر گئے بلکہ زندہ روپوش ہیں اور عنقرب آئیں گے آپ کانپ اٹھے اور فرمانے لگے اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے اور ان کی عورتیں اپنا دوسرا نکاح نہ کرتیں سنو شیاطین آسمانی باتیں چرا لایا کرتے تھے اور ان میں اپنی باتیں ملا کر لوگوں میں پھیلایا کرتے تھے، سلیمان علیہ السلام نے یہ تمام کتابیں جمع کر کے اپنی کرسی تلے دفن کر دیں۔ آپ علیہ السلام کے انتقال کے بعد جنات نے وہ پھر نکال لیں وہی کتابیں عراقیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ہی کتابوں کی باتیں وہ بیان کرتے اور پھیلاتے رہتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت «وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ»[ 2-البقرہ: 102 ] میں ہے۔
اس زمانہ میں یہ بھی مشہور ہو گیا تھا کہ شیاطین علم غیب جانتے ہیں سلیمان علیہ السلام نے ان کتابوں کو صندوق میں بھر کر دفن کر دینے کے بعد یہ حکم جاری کر دیا کہ جو یہ کہے گا اس کی گردن ماری جائے گی بعض روایتوں میں ہے کہ جنات نے ان کتابوں کو سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام کی کرسی تلے دفن کیا تھا اور ان کے شروع صفحہ پر لکھ دیا تھا کہ یہ علمی خزانہ آصف بن برخیا کا جمع کیا ہوا ہے جو سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے وزیر اعظم مشیر خاص اور دلی دوست تھے.
یہودیوں میں مشہور تھا کہ سلیمان علیہ السلام نبی نہ تھے بلکہ جادوگر تھے اس بنا پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ کے سچے نبی علیہ السلام نے ایک سچے نبی کی برات کی اور یہودیوں کے اس عقیدے کا ابطال کیا وہ سلیمان علیہ السلام کا نام نبیوں کے زمرے میں سن کر بہت بدکتے تھے اس لیے تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کر دیا۔ ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سلیمان نے تمام موذی جانوروں سے عہد لیا تھا جب انہیں وہ عہد یاد کرایا جاتا تھا تو وہ ستاتے نہ تھے پھر لوگوں نے اپنی طرف سے عبارتیں بنا کر جادو کی قسم کے منتر تنتر بنا کر ان سب کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا جس کا بطلان ان آیات کریمہ میں ہے یاد رہے کہ «علی» یہاں پر «فی» کے معنی میں ہے یا «تتلو» متضمن ہے تکذب کا، یہی اولیٰ اور احسن ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں کا ہونا قرآن سے ثابت ہے اور سلیمان علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہونا بھی قرآن سے ظاہر ہے۔ داؤد علیہ السلام اور جالوت کے قصے میں ہے «أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ»[ البقرہ: 246 ] بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے کہا تھا آیت «قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ»[ 26-الشعرأ: 153 ] یعنی تو جادو کئے گئے لوگوں میں سے ہے۔ پھر فرماتا ہے آیت «وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ»[ البقرہ: 102 ] الخ بعض تو کہتے ہیں یہاں پر «ما» نافیہ ہے یعنی انکار کے معنی میں ہے اور اس کا عطف «ماکفر سلیمان» پر ہے یہودیوں کے اس دوسرے اعتقاد کی کہ جادو فرشتوں پر نازل ہوا ہے اس آیت میں تردید ہے۔
ہاروت، ماروت لفظ شیاطین کا بدل ہے تثنیہ پر بھی جمع کا اطلاق ہوتا ہے جیسے آیت «فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ»[ 4-النساء: 11 ] میں یا اس لیے جمع کیا گیا کہ ان کے ماننے والوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور ان کا نام ان کی زیادہ سرکشی کی وجہ سے سرفہرست دیا گیا ہے قرطبی تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا یہی ٹھیک مطلب ہے اس کے سوا کسی اور معنی کی طرف التفات بھی نہ کرنا چاہیئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:419/2] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جادو اللہ عزوجل کا نازل کیا ہوا نہیں۔ سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان پر کوئی جادو نہیں اترا۔ [ایضاً] اس بناء پر آیت کا ترجمہ اس طرح پر ہو گا کہ ان یہودیوں نے اس چیز کی تابعداری کی جو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان پڑھا کرتے تھے سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا نہ اللہ تعالیٰ نے جادو کو ان دو فرشتوں پر اتارا ہے۔ (جیسے، اے یہودیو! تمہارا خیال جبرائیل علیہ السلام و میکائیل علیہ السلام کی طرف ہے۔) بلکہ یہ کفر شیطانوں کا ہے جو بابل میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے اور ان کے سردار دو آدمی تھے جن کا نام ہاروت و ماروت تھا۔
عبدالرحمٰن بن ابزی رحمہ اللہ اسے اس طرح پڑھتے تھے آیت «وما انزل علی الملکین داود وسلیمان» یعنی داؤد و سلیمان دونوں بادشاہوں پر بھی جادو نہیں اتارا گیا یا یہ کہ وہ اس سے روکتے تھے کیونکہ یہ کفر ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کا زبردست رد کیا ہے وہ فرماتے ہیں «ما» معنی میں «الذی» کے ہے اور ہاروت ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے زمین کی طرف اتارا ہے اور اپنے بندوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے انہیں جادو کی تعلیم دی ہے، لہٰذا ہاروت ماروت اس فرمان باری تعالیٰ کو بجا لا رہے ہیں۔
ایک غریب قول یہ بھی ہے کہ یہ جنوں کے دو قبیلے ہیں مَلِکیٗنِ یعنی دو بادشاہوں کی قرأت پر انزال خلق کے معنی میں ہو گا جیسے فرمایا آیت «وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ»[ 39-الزمر: 6 ] اور فرمایا آیت «وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ»[ 57-الحديد: 25 ] اور کہا آیت «وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا»[ 40۔ غافر: 13 ] یعنی ہم نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا کئے، لوہا بنایا، آسمان سے روزیاں اتاریں۔ حدیث میں ہے دعا «مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً» یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان سب کے علاج بھی پیدا کئے ہیں مثل مشہور ہے کہ بھلائی برائی کا نازل کرنے والا اللہ ہے یہاں سب جگہ انزال یعنی پیدائش کے معنی میں ہے ایجاد یعنی لانے اور اتارنے کے معنی میں نہیں اسی طرح اس آیت میں بھی اکثر سلف کا مذہب یہ ہے کہ یہ دونوں فرشتے تھے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ مضمون بسط و طول کے ساتھ ہے جو ابھی بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ فرشتے تو معصوم ہیں وہ گناہ کرتے ہی نہیں چہ جائیکہ لوگوں کو جادو سکھائیں جو کفر ہے اس لیے کہ یہ دونوں بھی عام فرشتوں میں سے خاص ہو جائیں گے۔ جیسے کہ ابلیس کی بابت آپ آیت «وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ»[ البقرہ: 34 ] الخ، کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں۔
سیدنا علی ابن مسعود ابن عباس ابن عمر کعب احبار رضی اللہ عنہم، سدی، کلبی رحمہ اللہ علیہما یہی فرماتے ہیں۔
اب اس حدیث کو سنیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا اور ان کی اولاد پھیلی اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونے لگی تو فرشتوں نے کہا کہ دیکھو یہ کس قدر برے لوگ ہیں کیسے نافرمان اور سرکش ہیں ہم اگر ان کی جگہ ہوتے تو ہرگز ہرگز اللہ کی نافرمانی نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا تم اپنے میں سے دو فرشتوں کو پسند کر لو میں ان میں انسانی خواہشات پیدا کرتا ہوں اور انہیں انسانوں میں بھیجتا ہوں پھر دیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے ہاروت و ماروت کو پیش کیا اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانی طبیعت پیدا کی اور ان سے کہہ دیا کہ دیکھو بنی آدم کو تو میں نبیوں کے ذریعہ اپنے حکم احکام پہنچاتا ہوں لیکن تم سے بلاواسطہ خود کہہ رہا ہوں کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا زنا نہ کرنا، شراب نہ پینا، اب یہ دونوں زمین پر اترے اور زہرہ کو ان کی آزمائش کے لیے حسین و شکیل عورت کی صورت میں ان کے پاس بھیجا جسے دیکھ کر یہ مفتوں ہو گئے اور اس سے زنا کرنا چاہا اس نے کہا اگر تم شرک کرو تو میں منظور کرتی ہوں انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو ہم سے نہ ہو سکے گا وہ چلی گئی پھر آئی اور کہنے لگی اچھا اس بچے کو قتل کر ڈالو تو مجھے تمہاری خواہش پوری کرنی منظور ہے انہوں نے اسے بھی نہ مانا وہ پھر آئی اور کہا کہ اچھا یہ شراب پی لو انہوں نے اسے ہلکا گناہ سمجھ کر اسے منظور کر لیا۔ اب نشہ میں مست ہو کر زناکاری بھی کی اور اس بچے کو بھی قتل کر ڈالا جب ہوش حواس درست ہوئے تو اس عورت نے کہا جن جن کاموں کا تم پہلے انکار کرتے تھے سب تم نے کر ڈالے۔ یہ نادم ہوئے انہیں اختیار دیا گیا کہ یا تو عذاب دنیا کو اختیار کرو یا عذاب اخروی کو۔ انہوں نے دنیا کے عذاب پسند کیے۔ صحیح ابن حبان مسند احمد ابن مردویہ ابن جریر عبدالرزاق میں یہ حدیث مختلف الفاظ سے مروی ہے۔ [مسند احمد:134/2:باطل] مسند احمد کی یہ روایت غریب ہے اس میں ایک راوی موسیٰ بن جبیر انصاری سلمی کو ابن ابی حاتم نے مستور الحال لکھا ہے۔
ابن مردویہ کی روایت میں یہی ہے کہ ایک رات کو اثناء سفر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا زہرہ تارا نکلا؟ اس نے کہا نہیں دو تین مرتبہ سوال کے بعد کہا اب زہرہ طلوع ہوا تو فرمانے لگے اس سے نہ خوشی ہو نہ بھلائی ملے۔ حضعر نافع رحمہ اللہ نے کہا ایک ستارہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے طلوع و غروب ہوتا ہے آپ رضی اللہ عنہ اسے برا کہتے ہیں؟ فرمایا میں وہی کہتا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر اس کے بعد مندرجہ بالا حدیث باختلاف الفاظ سنائی۔ [الموضوعات لابن الجوزی:187/1:باطل]
لیکن یہ بھی غریب ہے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ والی روایت مرفوع سے زیادہ صحیح موقوف ہے اور ممکن ہے کہ وہ بنی اسرائیلی روایت ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ صحابہ اور تابعین سے بھی اس قسم کی روایتیں بہت کچھ منقول ہیں بعض میں ہے کہ زہرہ ایک عورت تھی اس نے ان فرشتوں سے یہ شرط کی تھی کہ تم مجھے وہ دعا سکھا دو جسے پڑھ کر تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو انہوں نے سکھا دی یہ پڑھ کر چڑھ گئی اور وہاں تارے کی شکل میں بنا دی گئی۔ [مستدرک حاکم:265/2] بعض مرفوع روایتوں میں بھی یہ ہے لیکن وہ منکر اور غیر صحیح ہیں۔
ایک اور رویات میں ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو فرشتے صرف ایمان والوں کی بخشش کی دعا مانگتے تھے لیکن اس کے بعد تمام اہل زمین کے لیے دعا شروع کر دی بعض روایتوں میں ہے کہ جب ان دونوں فرشتوں سے یہ نافرمانیاں سرزد ہوئیں تب اور فرشتوں نے اقرار کر لیا کہ بنی آدم جو اللہ تعالیٰ سے دور ہیں اور بن دیکھے ایمان لاتے ہیں جن سے خطاؤں کا سرزد ہو جانا کوئی ایسی انوکھی چیز نہیں ان دونوں فرشتوں سے کہا گیا کہ اب یا تو دنیا کا عذاب پسند کر لو یا آخرت کے عذابوں کو اختیار کر لو۔ انہوں نے دنیا کا عذاب چن لیا چنانچہ انہیں بابل میں عذاب ہو رہا ہے۔
ایک رویات میں ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے تھے ان میں قتل سے اور مال حرام سے ممانعت بھی کی تھی اور یہ حکم بھی تھا کہ حکم عدل کے ساتھ کریں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ تین فرشتے تھے لیکن ایک نے آزمائش سے انکار کر دیا اور واپس چلا گیا پھر دو کی آزمائش ہوئی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ واقعہ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا ہے۔ یہاں بابل سے مراد بابل دنیاوند ہے اس عورت کا نام عربی میں زہرہ تھا اور نبطی زبان میں اس کا نام بیدخت تھا اور فارسی میں ناہید تھا۔ یہ عورت اپنے خاوند کے خلاف ایک مقدمہ لائی تھی جب انہوں نے اس سے برائی کا ارادہ کیا تو اس نے کہا پہلے مجھے میرے خاوند کے خلاف حکم دو تو مجھے منظور ہے انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس نے کہا مجھے یہ بھی بتا دو کہ تم کیا پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہو اور کیا پڑھ کر اترتے ہو؟ انہوں نے یہ بھی بتا دیا چنانچہ وہ اسے پڑھ کر آسمان پر چڑھ گئی اترنے کا وظیفہ بھول گئی اور وہیں ستارے کی صورت میں مسخ کر دی گئی۔ سیدنا عبداللہ بن عمر جب کبھی زہرہ ستارے کو دیکھتے تو لعنت بھیجا کرتے تھے اب ان فرشتوں نے جب چڑھنا چاہا تو نہ چڑھ سکے سمجھ گئے کہ اب ہم ہلاک ہوئے۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے پہل چند دنوں تک تو فرشتے ثابت قدم رہے صبح سے شام تک فیصلہ عدل کے ساتھ کرتے رہتے شام کو آسمان پر چڑھ جاتے پھر زہرہ کو دیکھ کر اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے زہرہ ستارے کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بھیجا الغرض ہاروت ماروت کا یہ قصہ تابعین میں سے بھی اکثر لوگوں نے بیان کیا ہے جیسے مجاہد، سدی، حسن بصری، قتادہ، ابوالعالیہ، زہری، ربیع بن انس، مقتل بن حیان وغیرہ وغیرہ رحم اللہ اجمعین اور متقدمین اور متاخیرن مفسرین نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں اسے نقل کیا ہے لیکن اس کا زیادہ تر دار و مدار بنی اسرائیل کی کتابوں پر ہے کوئی صحیح مرفوع متصل حدیث اس بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ قرآن کریم میں اس قدر بسط و تفصیل ہے پس ہمارا ایمان ہے کہ جس قدر قرآن میں ہے صحیح اور درست ہے اور حقیقت حال کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے [ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ مسند احمد ابن حبان بیہقی وغیرہ کی مرفوع حدیث علی ابن عباس بن مسعود وغیرہ کی موقوف روایات تابعین وغیرہ کی تفاسیر وغیرہ ملا کر اس واقعہ کی بہت کچھ تقویت ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی محال عقلی ہے نہ اس میں کسی اصول اسلامی کا خلاف ہے پھر ظاہر سے بیجا ہٹ اور تکلفات اٹھانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ واللہ اعلم ] [ فتح البیان ]
ابن جریر میں ایک غریب اثر اور ایک عجیب واقعہ ہے اسے بھی سنیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ دومتہ الجندل کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد آپ کی تلاش میں آئی اور آپ کے انتقال کی خبر پا کر بے چین ہو کر رونے پیٹنے لگی میں نے اس سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا کہ مجھ میں اور میرے شوہر میں ہمیشہ ناچاقی رہا کرتی تھی ایک مرتبہ وہ مجھے چھوڑ کر لاپتہ کہیں چلا گیا، ایک بڑھیا سے میں نے یہ سب ذکر کیا اس نے کہا جو میں کہوں وہ کر وہ خودبخود تیرے پاس آ جائے گا میں تیار ہو گئی وہ رات کے وقت دو کتے لے کر میرے پاس آئی ایک پر وہ خود سوار ہوئی اور دوسرے پر میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں بابل پہنچ گئیں میں نے دیکھا کہ دو شخص ادھر لٹکے ہوئے ہیں اور لوہے میں جکڑے ہوئے ہیں اس عورت نے مجھ سے کہا ان کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ میں جادو سیکھنے آئی ہوں۔
میں نے ان سے کہا انہوں نے کہا سن ہم تو آزمائش میں ہیں تو جادو نہ سیکھ اس کا سیکھنا کفر ہے میں نے کہا میں تو سیکھوں گی انہوں نے کہا اچھا پھر جا اور اس تنور میں پیشاب کر کے چلی آ میں گئی ارادہ کیا لیکن کچھ دہشت سی طاری ہوئی میں واپس آ گئی اور کہا میں فارغ ہو آئی ہوں انہوں نے پوچھا کیا دیکھا؟ میں نے کہا کچھ نہیں انہوں نے کہا تو غلط کہتی ہے ابھی تو کچھ نہیں بگڑا تیرا ایمان ثابت ہے اب بھی لوٹ جا اور کفر نہ کر میں نے کہا مجھے تو جادو سیکھنا ہے انہوں نے پھر کہا جا اور اس تنور میں پیشاب کر آ میں پھر گئی لیکن اب کی مرتبہ بھی دل نہ مانا واپس آئی پھر اسی طرح سوال جواب ہوئے میں تیسری مرتبہ پھر تنور کے پاس گئی اور دل کڑا کر کے پیشاب کرنے کو بیٹھ گئی میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑے سوار منہ پر نقاب ڈالے نکلا اور آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ واپس چلی آئی ان سے ذکر کیا انہوں نے کہا ہاں اب کی مرتبہ تو سچ کہتی ہے وہ تیرا ایمان تھا جو تجھ میں سے نکل گیا اب جا چلی جا میں آئی اور اس بڑھیا سے کہا انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں سکھایا اس نے کہا بس تجھے کچھ آ گیا اب تو جو کہے گی ہو جائے گا میں نے آزمائش کے لیے ایک دانہ گیہوں کا لیا اسے زمین پر ڈال کر کہا اگ جا وہ فوراً اگ آیا میں نے کہا تجھ میں بال پیدا ہو جائے چنانچہ ہو گئے میں نے کہا سوکھ جا وہ بال سوکھ گئے میں نے کہا الگ الگ دانہ ہو جا وہ بھی ہو گیا پھر میں نے کہا سوکھ جا تو سوکھ گیا پھر میں نے کہا آٹا بن جا تو آٹا بن گیا میں نے کہا روٹی پک جا تو روٹی پک گئی یہ دیکھتے ہی میرا دل نادم ہونے لگا اور مجھے اپنے بے ایمان ہو جانے کا صدمہ ہونے لگا۔
اے ام المؤمنین قسم اللہ کی نہ میں نے اس جادو سے کوئی کام لیا نہ کسی پر کیا میں یونہی روتی پیٹتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں لیکن افسوس بدقستمی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی میں نے نہ پایا اب میں کیا کروں؟ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی سب کو اس پر ترس آنے لگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متحیر تھے کہ اسے کیا فتویٰ دیں؟ آخر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا اب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ تم اس فعل کو نہ کرو توبہ استغفار کرو اور اپنے ماں باپ کی خدمت گزاری کرتی رہو۔
یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے کہ چھوٹی سی بات بتانے میں تامل ہوتا تھا آج ہم بڑی سے بڑی بات بھی اٹکل اور رائے قیاس سے گھڑ گھڑا کر بتانے میں بالکل نہیں رکتے اس کی اسناد بالکل صحیح ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ «عین» چیز جادو کے زور سے پلٹ جاتی ہے اور بعض کہتے ہیں نہیں صرف دیکھنے والے کو ایسا خیال پڑتا ہے اصل چیز جیسی ہوتی ہے ویسی ہی رہتی ہے جیسے قرآن میں ہے آیت «سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ»[ 7-الأعراف: 116 ] یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا اور فرمایا آیت «يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ»[ 20-طه: 66 ] موسیٰ علیہ السلام کی طرف خیال ڈالا جاتا تھا کہ گویا وہ سانپ وغیرہ ان کے جادو کے زور سے چل پھر رہے ہیں۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں لفظ بابل سے مراد بابل عراق ہے بابل دنیاوند نہیں۔
ابن ابی حاتم کی ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما بابل کی زمین میں جا رہے تھے عصر کی نماز کا وقت آ گیا لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا نہ کی بلکہ اس زمین کی سرحد سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھی اور فرمایا میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبرستان میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے اور بابل کی زمین میں نماز پڑھنے سے بھی ممانعت فرمائی ہے یہ زمین ملعون ہے۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث مروی ہے۔ [سنن ابوداود:490، قال الشيخ الألباني:ضعیف] اور امام صاحب نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا اور جس حدیث کو امام ابوداؤد اپنی کتاب میں لائیں اور اس کی سند پر خاموشی کریں تو وہ حدیث امام صاحب کے نزدیک حسن ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بابل کی سر زمین میں نماز مکروہ ہے جیسے کہ ثمودیوں میں نہ جاؤ اگر اتفاقاً جانا پڑے تو خوف الٰہ سے روتے ہوئے جاؤ۔ [صحیح بخاری:433] ہئیت دانوں کا قول ہے کہ بابل کی دوری بحر غربی اوقیانوس سے ستر درجہ لمبی اور وسط زمین سے نوب کی جانب بخط استوا سے تئیس درجہ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
چونکہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کفر و ایمان کا علم دے رکھا ہے اس لیے ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے ہیں اور ہر طرح روکتے ہیں جب نہیں مانتا تو وہ اسے کہہ دیتے ہیں اس کا نور ایمان جاتا رہتا ہے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے شیطان اس کا رفیق کار بن جاتا ہے ایمان کے نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا غضب اس کے روم روم میں گھس جاتا ہے حضرت ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں سوائے کافر کے اور کوئی جادو سیکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ فتنہ کے معنی یہاں پر بلا آزمائش اور امتحان کے ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:443/2] موسیٰ علیہ السلام کا قول قرآن پاک میں مذکور ہے آیت «إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ»[ 7-الاعراف: 155 ] اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جادو سیکھنا کفر ہے حدیث میں بھی ہے جو شخص کسی کاہن یا جادوگر کے پاس جائے اور اس کی بات کو سچ سمجھے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی وحی کے ساتھ کفر کیا [مجمع الزوائد:117/5] یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی تائید میں اور حدیثیں بھی آئی ہیں۔
پھر فرمایا کہ لوگ ہاروت ماروت سے جادو سیکھتے ہیں جس کے ذریعہ برے کام کرتے ہیں عورت مرد کی محبت اور موافقت کو بغض اور مخالفت سے بدل دیتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے میں نے فلاں کو اس طرح گمراہ کر دیا۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا۔ شیطان ان سے کہتا ہے۔ کچھ نہیں یہ تو معمولی کام ہے یہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہے۔ [صحیح مسلم:2813] پس جادوگر بھی اپنے جادو سے وہ کام کرتا ہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے مثلاً اس کی شکل صورت اسے بری معلوم ہونے لگے یا اس کے عادات و اطوار سے جو غیر شرعی نہ ہوں یہ نفرت کرنے لگے یا دل میں عداوت آ جائے وغیرہ وغیرہ رفتہ رفتہ یہ باتیں بڑھتی جائیں اور آپس میں چھوٹ چھٹاؤ ہو جائے“ مرا“ کہتے ہیں اس کا مذکر مونث اور تثنیہ تو ہے جمع نہیں بنتا پھر فرمایا یہ کسی کو بھی بغیر اللہ کی مرضی کے ایذاء نہیں پہنچا سکتے یعنی اس کے اپنے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر اور اس کے ارادے کے ماتحت یہ نقصان بھی پہنچتا ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:311/1] اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا جادو محض بے اثر اور بے فائدہ ہو جاتا ہے یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جادو اسی شخص کو نقصان دیتا ہے جو اسے حاصل کرے اور اس میں داخل ہو پھر ارشاد ہوتا ہے وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کے لیے سراسر نقصان دہ ہے جس میں کوئی نفع نہیں اور یہ یہودی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری چھوڑ کر جادو کے پیچھے لگنے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:314/1] نہ ان کی قدر و وقعت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے نہ وہ دیندار سمجھے جاتے ہیں پھر فرمایا اگر یہ اس کام کی برائی کو محسوس کرتے اور ایمان و تقویٰ برتتے تو یقیناً ان کے لیے بہت ہی بہتر تھا مگر یہ بےعلم لوگ ہیں اور فرمایا کہ اہل علم نے کہا تم پر افسوس ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ثواب ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کے لیے بہت ہی بہتر ہے لیکن اسے صبر کرنے والے ہی پا سکتے ہیں۔
اس آیت سے یہ بھی استدلال بزرگان دین نے کیا ہے کہ جادوگر کافر ہے کیونکہ آیت میں آیت «وَلَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ»[ 2۔ البقرہ: 103 ] فرمایا ہے امام احمد اور سلف کی ایک جماعت بھی جادو سیکھنے والے کو کافر کہتی ہے بعض کافر تو نہیں کہتے لیکن فرماتے ہیں کہ جادوگر کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
بجالہ بن عبید کہتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فرمان میں لکھا تھا کہ ہر ایک جادوگر مرد عورت کو قتل کر دو چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کی گردن ماری۔ [صحیح بخاری:3156] صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر ان کی ایک لونڈی نے جادو کیا جس پر اسے قتل کیا گیا۔ [مؤطا:871/2:کتاب العقول:باب ما جآء فی الغیلة و سحر، 14] امام احمد حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں تین صحابیوں سے جادوگر کے قتل کا فتویٰ ثابت ہے۔ [تفسیر قرطبی:48/2] ترمذی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جادوگر کی حد تلوار سے قتل کر دینا ہے۔ [سنن ترمذي:1460، قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس حدیث کے ایک راوی اسمعیل بن مسلم ضعیف ہیں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غالباً یہ حدیث موقوف ہے لیکن طبرانی میں ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مرفوع مروی ہے۔ (الطبرانی فی الکبیر [1666] ) «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
ولید بن عقبہ کے پاس ایک جادوگر تھا جو اپنے کرتب بادشاہ کو دکھایا کرتا تھا بظاہر ایک شخص کا سر کاٹ لیتا پھر آواز دیتا تو سر جڑ جاتا اور وہ موجود ہو جاتا مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک بزرگ صحابی نے یہ دیکھا اور دوسرے دن تلوار باندھے ہوئے آئے جب ساحر نے اپنا کھیل شروع کیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے خود اس کی گردن اڑا دی اور فرمایا لے اب اگر سچا ہے تو خود جی اٹھ پھر قرآن پاک کی یہ آیت پڑھ کر لوگوں کو سنائی آیت «اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ»[ 21۔ الانبیآء: 3 ] کیا تم دیکھتے بھالتے جادو کے پاس جاتے ہو؟ چونکہ اس بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ نے ولید کی اجازت اس کے قتل میں نہیں لی تھی اسلئے بادشاہ نے ناراض ہو کر انہیں قید کر دیا پھر چھوڑ دیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے فرمان اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق یہ کہا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب جادو شرکیہ الفاظ سے ہو۔
معتزلہ جادو کے وجود کے منکرین وہ کہتے ہیں جادو کوئی چیز نہیں بلکہ بعض لوگ تو بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ کہتے ہیں جو جادو کا وجود مانتا ہو وہ کافر ہے لیکن اہل سنت جادو کے وجود کے قائل ہیں یہ مانتے ہیں کہ جادوگر اپنے جادو کے زور سے ہوا پر اڑ سکتے ہیں اور انسان بظاہر گدھا اور گدھے کو بظاہر انسان بنا ڈالتے ہیں مگر کلمات اور منتر تنتر کے وقت ان چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے آسمان کو اور تاروں کو تاثیر پیدا کرنے والا اہل سنت نہیں مانتے، فلسفے اور نجوم والے اور بےدین لوگ تو تاروں کو اور آسمان کو ہی اثر پیدا کرنے والا جانتے ہیں اہل سنت کی ایک دلیل تو آیت «وما ہم بضارین» ہے اور دوسری دلیل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اثر ہونا ہے تیسرے اس عورت کا واقعہ جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا ہے جو اوپر ابھی ابھی گزرا ہے۔
اور بھی بیسیوں ایسے ہی واقعات وغیرہ ہیں۔ رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جادو کا حاصل کرنا برا نہیں محققین کا یہی قول ہے اس لیے کہ وہ بھی ایک علم ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ»[ 39۔ الزمر: 9 ] یعنی علم والے اور بےعلم برابر نہیں ہوتے اور اس لیے کہ یہ علم ہو گا تو اس سے معجزے اور جادو میں فرق پوری طرح واضح ہو جائے گا اور معجزے کا علم واجب ہے اور وہ موقوف ہے جادو کے سیکھنے پر جس سے فرق معلوم ہو پس جادو کا سیکھنا بھی واجب ہوا رازی رحمہ اللہ کا یہ قول سرتا پا غلط ہے اگر عقلاً وہ اسے برا نہ بتائیں تو معتزلہ موجود ہیں جو عقلاً بھی اس کی برائی کے قائل ہیں اور اگر شرعاً برا نہ بتاتے ہوں تو قرآن کی یہ آیت شرعی برائی بتانے کے لیے کافی ہے صحیح حدیث میں ہے جو کسی شخص کسی جادوگر یا کاہن کے پاس جائے وہ کافر ہو جائے گا۔ [صحیح مسلم:2230]