199۔ 1 بعض علماء نے اس کے معنی کئے ہیں ' ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو ' اور یہ زکوٰۃ کی فضیلت سے قبل کا حکم ہے، لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام بن جری اور امام بخاری وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے، چناچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر تنقید کرنے لگے کہ آپ زکوٰۃ میں نہ پوری عطاء دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر غضب ناک ہوئے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھتیجے تھے) حضرت عمر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا تھا (درگزر اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے پرہیز کیجئیے ' اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ ' جس پر حضرت عمر نے درگزر فرمایا اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کردینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 199۔ 2 عُرْف، ُ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔ 199۔ 3 یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔