179۔ 1 اس کا تعلق تقدیر سے ہے۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جا کر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے۔ یہ انہیں دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتادیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اس انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔ (2) یعنی دل آنکھ کان یہ چیزیں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے اس کی آیات کا مشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شحص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنی والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔