تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

23۔ 1 توبہ استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم ؑ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورة بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ جواز و اثبات میں عقلی قیاسی دلائل دینے لگا، جس کے نتیجہ میں وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استفغار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اسکو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل ' کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندمت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.