48۔ 1 ہر آسمانی کتاب اپنے سے ما قبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِنْ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف اور تغیر (یعنی کاٹ چھانٹ اور تبدیلی) بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔ 48۔ 2 اس سے پہلے آیت نمبر 42 میں نبی کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے، کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ 48۔ 3 یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کی خود ساختہ مزعومات و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ 48۔ 4 اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی اور دوسرے میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لئے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے " نحن معاشر الانبیاء اخوۃ لعلات، دیننا واحد " ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے " علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ 48۔ 5 یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے۔ لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔