46۔ 1 یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، نہ کہ اس کو جھٹلانے والے تھے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ ؑ پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی تکذیب (جھٹلایا) کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی (کفر کا فتویٰ دے کر رسوا کیا) 46۔ 2 یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر کتب آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا، یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح اور کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا سرخرو رہے گا جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ " وحدت ادیان " کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی۔ اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی۔ انجیل پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت 26 کا حاشیہ۔