15۔ 1 ان آیات (14 سے 113 تک) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرالی، جب اس کا چرچہ ہوا اور اسے بےنقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے، ان سب نے کہا زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے، یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ایبرق (طمعہ بشیر وغیرہ) ہوشیار تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہے اور طعمہ پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کرکے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بحیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فوراً صورتحال واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہوجانے کا مرحلہ آجائے تو فورا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ 15۔ 2 اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیت میں بھی ان کے اور ان کے حماتیوں کے غلط کردار کو نمایاں کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردار کیا جا رہا ہے۔