88۔ 1 یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورة، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ 88۔ 2 کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ۔ اوندھا کردیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کردیا، یا اس کے سبب ہلاک کردیا۔ 88۔ 3 جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر وعناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کرسکتا۔