33۔ 1 مَوَالِیْ، مولیٰ کی جمع ہے مولیٰ کے کئی معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچازاد، پڑوسی، لیکن یہاں اس سے مراد ورثاء ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہونگے۔ 33۔ 2 اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور اَیْمَانُکُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا۔ نصیبھم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون و تناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیْمَانُکُمْ سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا، لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لیے پھر (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ) 33:6 رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، نازل فرما کر اسے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب " فاتوھم نصیبھم " سے مراد دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مزکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ۭوَالَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ "4:33 سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الاقربون پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے یعنی شوہر یا بیوی انہوں نے جو کچھ میراث میں چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلا جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالا ان کی ادائیگی کی مزید تاکید کی گئی ہے۔