تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

12۔ 1 اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) اس طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔ 12۔ 2 بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا اگر زیادہ ہونگی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) 12۔ 3 کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہی جو کہ سر کو اس کے اطراف و جوانب سے وارث قرار پایا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلہ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ 12۔ 4 اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث میں اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں آرہا ہے یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مرد و زن (ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ) 4:11 کا قانون چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے لئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولاد میں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے بہرحال ایک بھائی یا ایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 12۔ 5 ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہونگے، نیز ان میں مذکر اور مؤنث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مراد مرد ہو یا عورت۔ 12۔ 6 میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گا اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمت نہیں دیتے ہیں نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کردی گئی (روح المعانی) 12۔ 7 بایں طور پر وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کردیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہیں لیا ہو، گویا اقرار کا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.