بدر والے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے یقیناً معلوم ہے کہ بعض بنو ہاشم وغیرہ زبردستی اس لڑائی میں نکالے گئے ہیں انہیں ہم سے لڑائی کرنے کی خواہش نہ تھی۔ پس بنو ہاشم کو قتل نہ کرنا۔ ابوالبختری بن ہشام کو بھی قتل نہ کیا جائے۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو بھی قتل نہ کیا جائے۔ اسے بھی بادل ناخواستہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ کھینچا ہے۔
اس پر ابوحذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ”کیا ہم اپنے باپ دادوں کو اپنے بچوں کو اپنے بھائیوں کو اور اپنے قبیلے کو قتل کریں اور عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیں؟ واللہ اگر وہ مجھے مل گیا تو میں اس کی گرد ماروں گا۔“ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو حفصہ رضی اللہ عنہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے منہ پر تلوار ماری جائے گی؟ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت سے مجھے یاد فرمایا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئیے کہ میں ابوحذیفہ کی گردن اڑادوں واللہ وہ تو منافق ہو گیا۔“
ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”واللہ مجھے اپنے اس دن کے قول کا کھٹکا آج تک ہے میں اس سے ابھی تک ڈر ہی رہا ہوں تو میں اس دن چین پاؤں گا جس دن اس کا کفارہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ میں راہ حق میں شہید کر دیا جاؤں۔“ چنانچہ جنگ یمامہ میں آپ شہید ہوئے رضی اللہ عنہ و رضا۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:140/3:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جس دن بدری قیدی گرفتار ہو کر آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات نیند نہ آئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے سبب پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے چچا کی آہ و بکا کی آواز میرے کانوں میں ان قیدیوں میں سے آ رہی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس وقت ان کی قید کھول دی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند آئی۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:141/3:ضعیف]
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ گرفتار کیا تھا۔ یہ بہت مالدار تھے انہوں نے سو اوقیہ سونا اپنے فدئیے میں دیا۔ بعض انصاریوں نے سرکار نبوت میں گزارش بھی کی کہ ہم چاہتے ہیں اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو بغیر کوئی زر فدیہ لیے آزاد کر دیں لیکن مساوات کے علم بردار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک چونی بھی کم نہ لینا پورا فدیہ لو۔[صحیح بخاری:2537]
قریش نے فدئیے کی رقمیں دے کر اپنے آدمیوں کو بھیجا تھا ہر ایک نے اپنے اپنے قیدی کی من مانی رقم وصول کی۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بھی کہ ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو مسلمان ہی تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمہارے اسلام کا علم ہے اگر یہ تمہارا قول صحیح ہے تو اللہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا لیکن چونکہ احکام ظاہر پر ہیں اس لیئے آپ اپنا فدیہ ادا کیجئے بلکہ اپنے دونوں بھتیجوں کا بھی۔ نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کا اور عقیل بن ابی طالب بن عبدالمطلب کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمرو کا جو بنو حارث بن فہر کے قبیلے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تو اتنا مال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے زمیں میں دفنایا ہے اور تم نے کہا ہے کہ اگر اپنے اس سفر میں کامیاب رہا تو یہ مال بنو الفضل اور عبداللہ اور قشم کا ہے؟ اب تو عباس رضی اللہ عنہ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ”واللہ میرے علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس مال کو بجز میرے اور ام الفضل کے کوئی نہیں جانتا۔ اچھا یوں کیجئے کہ میرے پاس سے بیس اوقیہ سونا آپ کے لشکریوں کو ملا ہے اسی کو میرا زر فدیہ سمجھ لیا جائے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں وہ مال تو ہمیں اللہ نے اپنے فضل سے دلوا ہی دیا۔ چنانچہ اب آپ نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا اور اپنے حلیف کا فدیہ اپنے پاس سے ادا کیا۔ اور اس بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اگر تم میں بھلائی ہے تو اللہ اس سے بہتر بدلہ دے گا۔ [دلائل النبوۃ للبیھقی:142/3:حسن]
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ”اللہ کا یہ فرمان پورا اترا اور ان بیس اوقیہ کے بدلے مجھے اسلام میں اللہ نے بیس غلام دلوائے جو سب کے سب مالدار تھے ساتھ ہی مجھے اللہ عزوجل کی مغفرت کی بھی اُمید ہے۔“
آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میرے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے میں نے اپنے اسلام کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی اور کہا کہ میرے بیس اوقیہ کا بدلہ مجھے دلوایئے جو مجھ سے لیے گئے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا الحمداللہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بدلے مجھے بیس غلام عطا فرمائے جو سب تاجر ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16335:ضعیف]
آپ رضی اللہ عنہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ ”ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لا چکے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے گواہ ہیں ہم اپنی قوم میں آپ کی خیر خواہی کرتے رہے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ ” اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے جس کے دل میں نیکی ہو گی اس سے جو لیا گیا ہے اس سے بہت زیادہ دے دیا جائے گا اور پھر اگلا شرک بھی معاف کر دیا جائے گا۔“ فرماتے ہیں کہ ”ساری دنیا مل جانے سے بھی زیادہ خوشی مجھے اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے مجھ سے جو لیا گیا واللہ اس سے سو حصے زیادہ مجھے ملا۔ اور مجھے امید ہے کہ میرے گناہ بھی دھل گئے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:16340:مرسل و ضعیف]
مذکور ہے کہ جب بحرین کا خزانہ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا وہ اسی [۸۰] ہزار کا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کے لیے وضو کر چکے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک شکایت کرنے والے کی اور ہر ایک سوال کرنے والے کی داد رسی اور نماز سے پہلے ہی سارا خزانہ راہ اللہ لٹا دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لو اس میں سے لے لو اور گٹھری باندھ کر لے جاؤ۔ پس یہ ان کے لیے بہت بہتر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ گناہ بھی معاف فرمائے گا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16337:مرسل]
یہ خزانہ ابن الحضرمی نے بھیجا تھا اتنا مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے پہلے یا اس کے بعد کبھی نہیں آیا۔ سب کا سب بوریوں پر پھیلادیا گیا اور نماز کی اذان ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مال کے پاس کھڑے ہو گئے مسجد کے نمازی بھی آ گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو دینا شروع کیا نہ تو اس دن ناپ تول تھی نہ گنتی اور شمار تھا، پس جو آیا وہ لے گیا اور دل کھول کر لے گیا۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے تو اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ لی لیکن اٹھا نہ سکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا اونچا کر دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بےساختہ ہنسی آ گئی اتنی کہ دانت چمکنے لگے۔ فرمایا: کچھ کم کر دو جتنا اٹھے اتنا ہی لو۔ چنانچہ کچھ کم لیا اور اٹھا کر یہ کہتے ہوئے چلے کہ الحمداللہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات تو پوری ہوتی دکھا دی اور دوسرا وعدہ بھی ان شاءاللہ پورا ہو کر ہی رہے گا۔ اس سے بہتر ہے جو ہم سے لیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اس مال کی تقسیم فرماتے رہے یہاں تک کہ اس میں سے ایک پائی بھی نہ بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل کو اس میں سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی۔ پھر نماز کے لیے آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ [مستدرک حاکم:329/3:صحیح]
دوسری حدیث، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا اتنا کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد اتنا مال کبھی نہیں آیا۔حکم دیا کہ مسجد میں پھیلا دو پھر نماز کے لیے آئے کسی کی طرف سے التفات نہ کیا نماز پڑھا کر بیٹھ گئے پھر تو جسے دیکھتے دیتے اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور کہنے لگے ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دلوائیے میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ہاتھ سے لے لو۔ انہوں نے چادر میں گٹھڑی باندھی لیکن وزنی ہونے کے باعث اٹھا نہ سکے تو کہا ”یا رسول اللہ کسی کو حکم دیجئیے کہ میرے کاندھے پر چڑھا دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو کسی سے نہیں کہتا۔ کہا ”اچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ذرا اٹھوا دیجئیے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی انکار کیا اب تو بادل ناخواستہ اس میں کچھ کم کرنا پڑا پھر اٹھا کر کندھے پر رکھ کر چل دیئے۔ ان کے اس لالچ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں جب تک یہ آپ کی نگاہ سے اوجھل نہ ہو گئے انہیں پر رہیں پس جب کل مال بانٹ چکے ایک کوڑی بھی باقی نہ بچی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے امام بخاری شریف میں تعلیقاً جزم کے صیغہ کے ساتھ وارد کی ہے۔ [صحیح بخاری:3165]
” اگر یہ لوگ خیانت کرنا چاہیں گے تو یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے پہلے وہ خود اللہ کی خیانت بھی کر چکے ہیں۔ تو ان سے یہ بھی ممکن ہے کہ اب جو ظاہر کریں اس کے خلاف اپنے دل میں رکھیں۔ اس سے تو نہ گھبرا جیسے اللہ تعالیٰ نے اس وقت انہیں تیرے قابو میں کر دیا ہے۔ ایسے ہی وہ ہمیشہ قادر ہے۔ اللہ کا کوئی کام علم و حکمت سے خالی نہیں۔ ان کے اور تمام مخلوق کے ساتھ جو کچھ وہ کرتا ہے اپنے ازلی ابدی پورے علم اور کامل حکمت کے ساتھ۔“
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کاتب کے بارے میں اتری ہے جو مرتد ہو کر مشرکوں میں جا ملا تھا۔ عطاء خراسانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی کرتے رہیں گے۔ سدی نے اسے عام اور سب کو شامل کہی یہی ٹھیک بھی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔