تفسير ابن كثير



تفسیر احسن البیان

61۔ 1 یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بدعا کرنا مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقین میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں جو وہ غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی حضرت علی ؓ، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن، حسین ؓ کو بھی ساتھ لیا اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھو ٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورے کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔ چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا جس کی وصولی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا ان کے ساتھ بھیجا (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.