246۔ 1 ملاء کسی قوم کے ان اشراف سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں)(ایسرالتفسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا دین میں بدعات ایجاد کرلیں حتیٰ کہ بتوں کی پوجا بھی شروع کردی انبیاء ان کو روکتے رہے لیکن یہ معصیت اور شرک سے بعض نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بلآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا جیسا قرآن نے بیان کیا ہے۔ 246۔ 2 نبی کی موجودگی میں بادشاہ کا مطالبہ بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا لیکن اللہ نے اس معاملے کو رد نہیں فرمایا بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کردیا جیسے کہ آگے آرہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے اور وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے مزید دیکھئے سورة المائدہ آیت۔ 20 کا حاشیہ۔