177۔ 1 یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاری اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمان تحویل قبلہ پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے جس سے بعض دفعہ رنجیدہ دل ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات وصفات میں یکتا اور تمام عیوب سے پاک قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الباساء سے تنگ دستی اور شدت فقر۔ الضراء سے نقصان یا بیماری اَلْبَاس سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہی سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔