رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہورہا ہے کہ ” کافروں سے کہدو کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائیں، اسلام اور اطاعت قبول کر لیں، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے سب معاف کر دیا جائے گا، کفر بھی، خطا بھی گناہ بھی۔“
حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو اگلی پچھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہو گی [صحیح بخاری:6921]
اور حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے۔[صحیح مسلم:121]
پھر فرماتا ہے کہ ” اگر یہ نہ مانیں اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی حالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو۔“
ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آیت «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا»[ 49-الحجرات: 9 ] ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے «وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا» [ 4-النساء: 93 ] ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا۔ اس وقت مسلمان کم تھے، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا۔
اس معترض شخص نے جب دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ مانتے نہیں تو کہا اچھا سیدنا علی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے، یہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی، یہ کہتے ہوئے ان [سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا] کے مکان کی طرف اشارہ کیا۔ [صحیح بخاری:4650]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے، اس وقت ان کا زور تھا، ان میں جانا فتنہ تھا، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں۔ [صحیح بخاری:4651]
اور روایت میں ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ فرمایا اس لیے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لیے ہو جانا جاہتے ہو۔ [صحیح بخاری:4513]
ذوالسطبین اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کا قائل ہو۔ سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت «وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّـهِ» پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا۔
بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے۔ دین سب اللہ کا ہو جائے یعنی توحید نکھر جائے «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے، تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے۔
بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔[صحیح بخاری:1399]
بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے، ایک شخص غیرت کیلئے، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آ جائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کر دو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کر دو۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔[صحیح بخاری:2810]
جیسے فرمان ہے «فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ» [ 9-التوبہ: 5 ] ، یعنی ” اگر یہ توبہ کر لیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو، ان کے راستے نہ روکو“۔
اور آیت میں ہے کہ «فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ»[ 9-التوبہ: 11 ] ” اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ “
اور آیت میں ہے کہ «وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ»[ 2-البقرة: 193 ] ” ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لیے ہی ہے۔“
ایک صحیح رویت میں ہے کہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاتی ہے تو اس نے جلدی سے «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہہ دیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تو نے اسے اس کے «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کہنے کے بعد قتل کیا؟ تو «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کا مقابلہ کرے۔ باربار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے، یہاں تک کہ اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا، تاکہ اسلام کے زعم میں اس کو قتل نہ کردیتا۔ [صحیح بخاری:4269]
پھر فرماتا ہے کہ ” اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مولا، تمہارا مالک، تمہارا مددگار اور ناصر ہے۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔“
ابن جریر میں ہے کہ عبدالملک بن مروان نے عروہ رحمہ اللہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت دی، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے، اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے، آمین۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہیں معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے لگیں مگر جب ان کے معبودان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا برا ماننے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی کرنے لگے۔
اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہو گئے، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی۔
پھر سرداران کفر نے آپس میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کر دیا اور محفوظ رکھ لیا۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگیں تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں۔
یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بے خوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آ گئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے۔ لیکن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہرے رہے۔
اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہو گئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آ گئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے۔
پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچھ دب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکے شریف واپس چلے آئیں۔ چنانچہ وہ بھی تھوڑے بہت آ گئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار مسلمان ہو گئے۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کر لیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چنانچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا۔
ہجرت حبشہ پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا۔ اب ستر بزرگ سرداران مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر نبی کریم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔
موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی، عہدو پیمان، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے۔ اگر کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی ہمارے ہاں آ جائے تو ہم اس کے امن و امان کے ذمے دار ہیں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔
اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کر دیا۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہو گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکے کو خالی کر گئے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16097:مرسل]
یہی ہے وہ فتنہ جسے اللہ فرماتا ہے ” ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے۔ “ «الْحَمْدُ لِلَّـه» نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔