یہ صراط مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔
صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا۔
«وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا» [4: 69] اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔
بعض روایات سے ثابت ہے کہ
«مَغْضُوْبُ عَلَيْهِمْ» ”جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا
“ سے مراد یہودی اور
«وَلا الضَّآلِيْن» گمراہوں سے مراد نصاریٰ
(عیسائی) ہیں۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر علیہ السلام کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کیا اور انہیں
(اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورة کے آخر میں
«آمِيْن» کہنے کی نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی اس لیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔