سورة الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتدا کے ہیں۔ اس لئے اسے
«الفاتحه» یعنی
«فاتحة الكتاب» کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً
«ام القرآن»،
«السبع المثاني»،
«القرآن العظيم»،
«الشفاء»،
«الرقيه» (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام
«الصلوة» بھی ہے جیسا کہ:
ایک حدیث قدسی میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«قسمت الصلوة بيني وبين عبدي.» [الحديث صحيح مسلم كتاب الصلوة] ”میں نے
«صلوة» (نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔
“ مراد سورة فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورة فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کر دی گئی ہے، فرمایا:
«لاصلوة لمن لم يقرا بفاتحه الكتاب» [صحيح بخاري و مسلم] ”اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورة فاتحہ نہیں پڑھی۔
“
اس حدیث میں
«من» کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے، منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، فرض نماز ہو یا نفل، ہر نمازی کے لئے سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم پر قرات بوجھل ہو گئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لاتفعلوا الابام القرآن فانه لاصلوة لمن لم يقرابها» ”تم ایسا مت کرو
(یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورة فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
“ [ابوداؤد، ترمذي، نسائي]
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من صلى صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج. ثلاثا غيرتمام» جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے، تین مرتبہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا
«انانكون وراء الامام» (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«اقرا بها فى نفسك» (امام کے پیچھے تم سورة فاتحہ اپنے جی میں پڑھو۔ [صحيح مسلم]
مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے:
«وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ» [7: 24]
جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث «واذا قرا فانصتوا» (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورة فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورة فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورة فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورة فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورة فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے۔ جب کہ سورة فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہو سکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ «فتعوذ بالله من هذا.» دیکھئے: سورة اعراف آیت 24 کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ)۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے [مجموع فتاوي ابن تيميه 23/265]
1 یہ سورة مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (3 1 نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کے لئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورة فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورة نمل کی آیت نمبر 30 کے کہ اس میں بالاتفاق «بِسْمِ اللّٰهِ» اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ «بِسْمِ اللّٰهِ» کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے «بسم الله» پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے «بِسْمِ اللّٰهِ» پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ»، سے پہلے «اَعُوْذُ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ» پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔