(آیت 6) مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ: لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالنے والے شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا» [ الأنعام: ۱۱۲ ]”اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیاطین کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے ساتھ ایک جن شیطان اور ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے، شیطان کا کام برائی کا وسوسہ ڈالنا اور فرشتے کا کام بھلائی کا الہام کرنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وَكَّلَ اللّٰهُ بِهِ قَرِيْنَهُ مِنَ الْجِنِّ، قَالُوْا وَ إِيَّاكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ وَ إِيَّايَ إِلَّا أَنَّ اللّٰهَ أَعَانَنِيْ عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِيْ إِلَّا بِخَيْرٍ ][ مسلم، صفۃ القیامۃ، باب تحریش الشیطان…: ۲۸۱۴ ]”تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جنوں میں سے اس کا ایک قرین (ساتھی) مقرر کر رکھا ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! اور آپ کے ساتھ بھی وہ مقرر ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی ہے تو وہ تابع ہو گیا ہے اور وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔“ صحیح مسلم کی اسی حدیث میں سفیان سے مروی یہ الفاظ ہیں: [ وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِيْنُهُ مِنَ الْجِنِّ وَ قَرِيْنُهُ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ ][ مسلم، صفۃ القیامۃ، باب تحریش الشیطان…: ۲۸۱۴ ]”(ہر آدمی کے ساتھ) جنوں سے اس کا قرین (ساتھی) اور فرشتوں سے اس کا قرین (ساتھی) مقرر کیا گیا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انصار صحابہ سے فرمایا: [ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يَّقْذِفَ فِيْ قُلُوْبِكُمَا سُوْئًا أَوْ قَالَ شَيْئًا ][ بخاري، بدء الخلق، باب صفۃ إبلیس و جنودہ: ۳۲۸۱ ]” شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور میں ڈرا کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ، یا فرمایا کوئی چیز ڈال دے گا۔“ شیطان اور اس کا جنی قبیلہ انسانوں کی نگاہوں سے مخفی رہ کر فتنہ انگیزی کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ (دیکھیے انعام: ۲۷) رہے انسانی شیطان تو وہ ہمیشہ چھپ کر تو حملہ آور نہیں ہو سکتے، مگر اپنی باتوں اور طرز عمل سے وسوسہ ڈالتے اور دل میں برائی کا بیج بو دیتے ہیں۔
دوسرے وسوسہ ڈالنے والوں کے علاوہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ ڈالتا ہے۔ اس کی غلط خواہشات اور بد اعمالیاں اسے برائی کے لیے اکساتی اور ابھارتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ»[ قٓ: ۱۶ ]”اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے: [ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّآتِ أَعْمَالِنَا ][ ابن ماجہ، النکاح، باب خطبۃ النکاح: ۱۸۹۲۔ ترمذي: ۱۱۰۵، وصححہ الألباني ]”اور ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔“ ان تمام وسوسہ ڈالنے والوں سے، خواہ وہ شیاطین الجن ہوں یا شیاطین الانس یا خود آدمی کا نفس ہو، اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی ان کے شر سے بچا سکتا ہے۔