(آیت 4) وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ: ” النَّفّٰثٰتِ “”نَفَّاثَةٌ“ کی جمع ہے جو ”نَفَثَ يَنْفُثُ نَفْثًا“(ن، ض)(پھونک مارنا، جس کے ساتھ تھوڑی سی تھوک ہو) سے مشتق ہے، بہت پھونکیں مارنے والی عورتیں یا جماعتیں۔ اگر ”نَفَّاثَةٌ“ میں تاء ”عَلَّامَةٌ“ کی طرح مبالغے کے لیے ہو یا ” النَّفّٰثٰتِ “ سے مراد نفوس ہوں تو عورتوں کے علاوہ بہت پھونکیں مارنے والے مرد بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ ” الْعُقَدِ “”عُقْدَةٌ“ کی جمع ہے، گرہیں۔ ابن جریر اور مفسرین سلف کے مطابق گرہوں میں پھونکیں مارنے والیوں سے مراد جادو کرنے والی عورتیں یا لوگ ہیں، کیونکہ انھوں نے جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کرکے اس پر جادو کرتے ہوئے کسی تانت یا دھاگے میں گرہیں ڈالتے جاتے اور منتر پڑھ پڑھ کر ان میں پھونکیں مارتے جاتے ہیں۔ ان کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لیے کی گئی کہ وہ چھپ کر وار کرتے ہیں۔ آدمی کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ اسے تکلیف کیوں ہے، وہ بیماری سمجھ کر علاج معالجہ میں لگا رہتا ہے اور تکلیف بڑھتی جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے کہا کہ ” الْعُقَدِ “(گرہوں) سے مراد مردوں کے پختہ عزم اور ارادے ہیں اور ” النَّفّٰثٰتِ “ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح تھوک کے ساتھ رسی کی گرہیں نرم کی جاتی ہیں اس طرح عورتیں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مردوں کے پختہ ارادوں کو بدل دیتی ہیں، اس آیت میں ان عورتوں کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی۔ یہ معنی پر لطف ہونے کے باوجود سلف کی تفسیر کے خلاف ہے اور اکثر یہ معنی کرنے والے وہ لوگ ہیں جو جادو سے نقصان پہنچنے کے قائل نہیں اور انھیں اپنے اس موقف پر اس قدر اصرار ہے کہ وہ بخاری ومسلم اور حدیث کی بہت سی دوسری کتابوں میں مروی حدیث کو ماننے ہی سے انکار کر دیتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ لبید بن اعصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور آپ اس جادو کی وجہ سے کچھ عرصہ بیمار اور پریشان رہے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، کتاب الطب، باب ہل یستخرج السحر؟:۵۷۶۵،۵۷۶۳ ]