کسی بھی قسم کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کے لیے سورۂ فلق اور سورۂ ناس جیسی کوئی چیز نہیں۔ ان سورتوں میں تمام جسمانی و روحانی آفات سے بچانے اور انھیں دور کرنے کی زبردست تاثیر موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے، خصوصاً پناہ کے باب میں ان کو بے مثل قرار دیا ہے۔ یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں: (1) عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَلَمْ تَرَ آيَاتٍ أُنْزِلَتِ اللَّيْلَةَ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قَطُّ: «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» وَ «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ» ][مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراء ۃ المعوذتین: ۸۱۴]”کیا تم نے وہ آیات نہیں دیکھیں جو آج رات نازل کی گئی ہیں، جن کی مثل کبھی دیکھی ہی نہیں گئی؟ وہ سورۂ فلق اور سورۂ ناس ہیں۔“(2) ابن عابس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: [ أَلاَ أُخْبِرُكَ بِأَفْضَلِ مَا يَتَعَوَّذُ بِهِ الْمُتَعَوِّذُوْنَ؟ قَالَ بَلٰي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» وَ «قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ» هَاتَيْنِ السُّوْرَتَيْنِ ][ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین: ۵۴۳۴ ]”کیا میں تمھیں سب سے بہتر وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ساتھ پناہ پکڑنے والے پناہ پکڑتے ہیں؟“ انھوں نے کہا: ”کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ “ اور ” قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ “ یہ دو سورتیں۔“
(3) عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ خَرَجْنَا فِيْ لَيْلَةٍ مَّطِيْرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيْدَةٍ نَطْلُبُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيْ لَنَا، قَالَ فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، ثُمَّ قَالَ قُلْ، فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا، قَالَ قُلْ، فَقُلْتُ مَا أَقُوْلُ؟ قَالَ قُلْ «قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ» وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِيْنَ تُمْسِيْ وَ تُصْبِحُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ][ترمذي، الدعوات، باب الدعاء عند النوم: ۳۵۷۵، وقال الألباني حسن ]”ہم ایک بارش اور سخت اندھیرے والی رات میں نکلے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے، تاکہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں۔ چنانچہ میں آپ سے جا ملا، تو آپ نے فرمایا: ”کہو۔“ میں نے کچھ نہ کہا، آپ نے پھر فرمایا: ”کہو۔“ تو میں نے کچھ نہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کہو۔“ میں نے کہا: ”میں کیا کہوں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “ اور معوذتین صبح و شام تین تین مرتبہ کہہ، یہ تجھے ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی۔“(4) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”معوذ تین نازل ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں سے اور انسان کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب معوذتین اتریں تو آپ نے ان دونوں کو معمول بنا لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا۔“[ ترمذي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في الرقیۃ بالمعوذتین: ۲۰۵۸ ] ترمذی نے اسے حسن صحیح اور البانی نے صحیح کہا ہے۔ (5) عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے متعلق پوچھا۔ عقبہ فرماتے ہیں کہ (ہم نے یہ سوال کیا تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان دونوں سورتوں کے ساتھ صبح کی جماعت کروائی۔ [ نسائي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في سورتي المعوذتین: ۵۴۳۶، وصححہ الألباني ] اس سے معلوم ہوا کہ ان کا نام معوذتین معروف تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ نے لمبی سورتوں کی جگہ انھیں کافی قرار دیا۔ [ دیکھیے ترمذي، الاستعاذۃ، باب ما جاء في الرقیۃ بالمعوذتین: ۲۰۵۸]
(6) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو دونوں ہتھیلیوں کو جمع کرتے پھر ان میں پھونکتے۔ دونوں میں ” قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ “، ” قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ “ اور ” قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ “ پڑھتے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پر جہاں تک ہو سکتا پھیرتے۔ پھیرنے کی ابتدا سر،چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے۔ آپ اس طرح تین مرتبہ کرتے۔“[ بخاري، فضائل القرآن، باب فضل المعوذات: ۵۰۱۷ ](7) عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے روایت ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھ کر پھونکتے تھے۔ جب آپ کا درد بہت بڑھ گیا تو میں آپ پر پڑھتی اور آپ ہی کا ہاتھ اس ہاتھ کی برکت کی امید سے (آپ کے جسم پر) پھیرتی تھی۔“[ بخاري، الاستعاذۃ، باب ما جاء في المعوذات: ۵۰۱۶ ] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ان تینوں سورتوں کو مذکورہ اوقات میں روزانہ پڑھنا چاہیے، یہ ہر قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں اور جن و انس میں سے شیاطین کے شرور و آفات سے بھی اللہ کی پناہ میں رکھتی ہیں۔
تنبیہ: جب ہم ”أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ“ یا معوذات پڑھتے ہیں تو ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبان سے یہ الفاظ ادا کر دیے جائیں، بلکہ ضروری ہے کہ وہ تمام خیالات، خواہشات اور اعمال ترک کرنے کی کوشش کی جائے جو شیطان کو پسند ہیں۔ جس طرح کسی شخص پر کوئی درندہ حملہ آور ہو تو اس کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ میں فلاں قلعہ میں پناہ لیتا ہوں، بلکہ اسے اس قلعہ میں پہنچنے کی جدو جہد بھی کرنا ہو گی۔ اسی طرح دشمن کے حملے سے اللہ کی پناہ طلب کرنے والے اور اس پر فتح و نصرت کی دعا کرنے والے کے لیے پناہ اور دعا کے الفاظ ہی منہ سے ادا کر دینا کافی نہیں، بلکہ دشمن کے خلاف تیاری، میدان میں نکلنا اور قتل و قتال کے لیے تیار رہنا بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ دعا بھی کی جائے تو واقعی اللہ تعالیٰ کی پناہ بھی حاصل ہوتی ہے اور اس کی حفاظت بھی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عملاً تو ہر بات میں شیاطین الانس والجن کی پیروی کرے، مگر منہ سے اللہ کی پناہ طلب کرتا رہے تو یہ پناہ طلب کرنا اسے شیاطین سے اور ان کے وسوسوں سے نہیں بچا سکتا۔ اس کی ایک جامع مثال یہ ہے کہ ”لا الٰہ الا اللہ “ کہنے والا شخص یقینا جنت میں جائے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہے، مگر کیا صرف یہ الفاظ ادا کرنے والا جہنم سے اللہ کی پناہ میں چلا جاتا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ جو ”صَادِقًا مِّنْ قَلْبِهِ“ ہو، یعنی سچے دل سے صرف اللہ کو معبود برحق مانے اور اسی کی عبادت کرے، اس کے لیے یہ فضیلت ہے۔ اگر وہ کسی غیر کو یا اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا لے تو پھر کروڑ دفعہ بھی ”لا الٰہ الا اللہ“ پڑھتا رہے تو جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ (ملخص از قاسمی)
(آیت 1) ➊ قُلْ اَعُوْذُ …: ” اَعُوْذُ “”عَاذَ يَعُوْذُ عَوْذًا وَمَعَاذًا“(ن) پناہ پکڑنا۔ پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز سے خوف محسوس کرے اور سمجھے کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس سے بچنے کے لیے وہ کسی دوسرے کی حفاظت میں چلا جائے یا کسی چیز کی آڑ لے لے۔ ظاہر ہے پناہ اسی کی لی جاتی ہے جس کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ اس خوف ناک چیز سے بچا سکتا ہے۔ پناہ بعض اوقات ایسی چیزوں کی لی جاتی ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بعض خوف ناک چیزوں سے بچنے کا سبب بنا دیا ہے، مثلاً دشمن سے بچنے کے لیے کسی قلعہ یا خندق یا مورچے وغیرہ کی پناہ لینا اور کسی ظالم سے بچنے کے لیے کسی طاقتور آدمی یا قوم کی پناہ لینا، یہ پناہ کسی بھی چیز کی لی جا سکتی ہے اور بعض اوقات یہ سمجھ کر پناہ لی جاتی ہے کہ وہ خطرات جن میں دنیا کے بچاؤ کے تمام ذرائع و اسباب بے کار ہو جائیں ان میں فلاں ہستی بچا سکتی ہے۔ سورۂ فلق اور سورۂ ناس میں جس پناہ کا ذکر ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ سے پناہ مانگی گئی ہے اس سے مراد پناہ کی دوسری قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ پناہ مانگنا شرک ہے۔ مشرک لوگ اپنے تحفظ کے لیے اللہ کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں، جنوں، فرشتوں یا پیروں، پیغمبروں کی پناہ لیتے اور ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں تعلیم دی کہ ایسے تمام خطرات سے بچنے کے لیے میری ان صفات کی پناہ لو جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ ایسے تمام خطرات سے میں ہی تمھیں بچا سکتا ہوں۔
➋ بِرَبِّ الْفَلَقِ: ”فَلَقَ يَفْلِقُ فَلَقًا“(ض) پھاڑنا۔ یہاں مصدر ” الْفَلَقِ “ مفعول ”مَفْلُوْقٌ“ کے معنی میں ہے۔ اس کی تفسیر میں معتبر اقوال دو ہیں، پہلا قول جابربن عبداللہ رضی اللہ عنھما کا ہے جو ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے، ان کے علاوہ کئی تابعین کا بھی یہی قول ہے کہ ” الْفَلَقِ “ کا معنی صبح ہے، کیونکہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فَالِقُ الْاِصْبَاحِ» [ الأنعام: ۹۶]”یعنی وہ رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح لانے والا ہے۔“ صبح کے رب کی پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ جو رب رات کی تاریکی کو دور کرکے روشن صبح لانے والا ہے میں ساری مخلوق کے شر سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، کیونکہ جب وہ رات کی تاریکی کو دور کر دیتا ہے، جس میں بے شمار شر ور پائے جاتے ہیں تو اس کے لیے دوسرے شرور کو دور کرنا اور ان سے بچانا تو معمولی بات ہے۔ دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ہے جو طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور ضحاک کا قول بھی یہی ہے کہ ” الْفَلَقِ “ سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پھاڑ کر نکالا ہے، مثلاً زمین سے نباتات، پہاڑوں سے چشمے، بادلوں سے بارش اور رحم مادر اور انڈوں سے حیوانات۔ ان کے علاوہ جہاں بھی پیدائش کا معاملہ ہے اکثر میں انشقاق (پھٹنے) کا سلسلہ موجود ہے۔ گویا ” الْفَلَقِ “ کا معنی مخلوق ہے، مطلب یہ ہوگا کہ میں ساری مخلوق کے مالک کی پناہ پکڑتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی مخلوق کے شر سے بچا لے۔ یہ معنی زیادہ جامع ہے، اس لیے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔