(آیت 2) ➊ اَللّٰهُ الصَّمَدُ: ” الصَّمَدُ “ کی تفسیر میں سلف کے کئی اقوال ہیں، ان کا خلاصہ تین اقوال میں آجاتا ہے: (1)” الصَّمَدُ “ وہ سردار ہے جس کی طرف لوگ قصد کرکے جائیں، جس سے بڑا کوئی سردار نہ ہو۔ یہ ”صَمَدَ“(ف، ن)(قصد کرنا) سے مشتق ہے۔ گویا ” الصَّمَدُ “ بمعنی ”مَصْمُوْدٌ “ ہے۔ اکثر سلف نے یہی معنی کیا ہے۔ (2) جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ (3) جس کا پیٹ نہ ہو، جو کھوکھلا نہ ہو، جس سے کچھ نکلتا نہ ہو۔ اللہ پر یہ تینوں معانی صادق آتے ہیں۔
➋ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب خبر پر الف لام آجائے تو کلام میں حصر پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر ”اَللّٰهُ صَمَدٌ“ ہوتا تو معنی یہ تھا کہ اللہ صمد ہے۔ اب ” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “ فرمایا، تو معنی یہ ہے کہ اللہ ہی ”صمد“ ہے، کوئی اور صمد نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ” اَللّٰهُ الصَّمَدُ “ فرمایا جس کا معنی ہے اللہ ایک ہے۔ وہاں ”اَللّٰهُ الْأَحَدُ“ نہیں فرمایا کہ اللہ ہی ایک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ وہ ہستی جو ایک ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور کو اَحد کہہ ہی نہیں سکتے۔ ہر ایک کا ثانی کسی نہ کسی طرح موجود ہے، کسی اور چیز میں اس کا ثانی نہ ہو تو مخلوق ہونے میں اس کے بے شمار ثانی موجود ہیں، اس لیے اس کائنات میں ایک ہستی صرف اللہ کی ہے، اس لیے وہاں حصر کی ضرورت ہی نہیں، جبکہ صمد ہونے کے دعوے دار بے شمار ہیں، جن کے پاس لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے فرمایا اصل صمد صرف وہ ہے، کیونکہ دوسرے لوگ کتنے بھی بڑے سردار ہوں، لوگ ان کے پاس اپنی حاجتوں کے لیے جاتے ہوں، مگر وہ خود کسی نہ کسی کے محتاج ہیں۔ یہ صرف اللہ کی ہستی ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں، باقی سب اس کے محتاج ہیں، وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے کا محتاج نہیں، جیساکہ فرمایا: «وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَمُ» [ الأنعام: ۱۴ ]”حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔“ پھر نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ ” الصَّمَدُ “ کے اس مفہوم کو ” بے نیاز“ کا لفظ کافی حد تک ادا کرتا ہے۔