(آیت 7)وَ يَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ: آخرت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ تو ان کی نمازوں ہی سے ظاہر ہے، لوگوں سے بھی ان کا معاملہ درست نہیں۔ وہ معمولی چیز کے ساتھ بھی کسی کو فائدہ پہنچانے پر تیار نہیں ہیں، جب اس کے عوض انھیں دنیا میں کچھ ملنے کی توقع نہ ہو۔ ” الْمَاعُوْنَ “”مَعْنٌ“ سے ہے، جس کا معنی ”شَيْءٌ قَلِيْلٌ“(تھوڑی سی چیز) ہے۔ ”تفسیر الوسیط للطنطاوی“ میں ہے: ” الْمَاعُوْنَ “ کی اصل ”مَعُوْنَةٌ“ ہے جس کا مادہ ”عَوْنٌ“(مدد) ہے، اس کا ”الف“”تاء “ کے بدلے میں لایا گیا ہے جو آخر سے حذف کر دی گئی ہے۔ گویا ” الْمَاعُوْنَ “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے عام ضرورتوں میں مدد لی جاتی ہے۔“(الوسیط) علی رضی اللہ عنہ اور بعض مفسرین نے اس سے مراد زکوٰۃ لی ہے، کیونکہ وہ کل مال کے مقابلے میں بالکل قلیل یعنی اڑھائی فیصد ہوتی ہے، یعنی یہ لوگ اتنا معمولی صدقہ کرنے پر بھی تیار نہیں۔ ابوہریرہ، ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنھم اور بہت سے مفسرین نے اس سے گھروں میں برتنے کی وہ چیزیں مراد لی ہیں جو ہر وقت ہر گھر میں نہیں ہوتیں بلکہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے سے مانگ لی جاتی ہیں، مثلاً سوئی، ہانڈی، کلہاڑی، پیالہ، آگ اور پانی وغیرہ اور عام طور پر ”ماعون“ کا اطلاق انھی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی وہ معمولی سے معمولی چیز جو استعمال کے بعد انھیں واپس مل جائے گی، وہ بھی کسی کو دینے پر تیار نہیں، کیونکہ آخرت میں اس کے ثواب کی انھیں امید نہیںاور دنیا میں انھیں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کو جھٹلانے والے ایسے لوگوں کے لیے تباہی اور بربادی کی وعید ذکر فرمائی ہے۔