(آیت 3) يَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ: ”خَلَدَ يَخْلُدُ خُلُوْدًا“(ن) ہمیشہ رہنا اور ”أَخْلَدَ يُخْلِدُ إِخْلَادًا“(افعال) ہمیشہ رہنے والا بنا دینا۔ ” اَخْلَدَهٗ “ ماضی کا صیغہ ہے، اس لیے آیت کا ترجمہ کیا گیا ہے: ”وہ گمان کرتا ہے کہ اس کے مال نے اسے ہمیشہ رہنے والا بنا دیا۔“ اس کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ مال کو موت سے بچانے والا سمجھتا ہے، کیونکہ اتنی عمر ہونے کے باوجود وہ مال جمع ہی کرتا جاتا ہے، نہ اللہ کا حق ادا کرتا ہے نہ بندوں کا، تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جمع کیا ہوا مال اسے مرنے نہیں دے گا بلکہ ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ورنہ ساٹھ ستر برس کی عمر میں اپنے لیے کروڑوں اربوں روپے جمع کرنے اور سیکڑوں برس باقی رہنے والی پختہ اور مضبوط عمارتیں بنانے کا اس کے سوا کیا مطلب ہے کہ یہ مال اور عمارتیں اسے ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: «اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ (128) وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ»[ الشعراء: ۱۲۸، ۱۲۹ ]”کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو؟ اس حال میں کہ لاحاصل کام کرتے ہو۔ اور بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو، شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ “