(آیت 2) ➊ الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗ: یعنی لوگوں کی عیب جوئی، ان پر طعنہ زنی اور ان کی تحقیر کا اصل باعث اس کی مال جمع کرنے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش اور شدید بخل ہے۔ اس بخل نے چونکہ اس میں فراخ دلی یا ہمدردی وغیرہ کی کوئی خوبی باقی نہیں چھوڑی، اس لیے وہ اپنی خست و کمینگی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہر صاحب خیر پر طعن کرتا اور اس کی عیب جوئی کرتا ہے، تاکہ کوئی اس کے بخل و حرص کی مذمت کی طرف متوجہ ہی نہ ہو سکے۔ منافقین بھی یہی کام کرتے تھے، فرمایا: «اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ» [ التوبۃ: ۷۹ ]” یہ وہ لوگ ہیں جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اور ان پر بھی جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں، سو یہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔“ اس کے علاوہ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے لیے دوسروں کی بدگوئی اور عیب جوئی کرتا ہے اور اپنے آپ کو صاف ستھرا ظاہر کرتا ہے، تاکہ لوگ ہر سودے اور ہر کام میں کسی اور سے معاملہ کرنے کے بجائے صرف اس سے معاملہ کریں اور اس کا مال بڑھتا رہے۔ اگر ” هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ“ کا واضح نقشہ دیکھنا ہو تو جمہوری انتخابات میں کھڑے ہونے والے امیدواروں کے بیانات پڑھ لیں کہ وہ سیٹ کے حصول کے لیے اپنے حریفوں پر کس قدر طعن اور بہتان تراشی کرتے ہیں۔
➋ یعنی مال جو انسان کی ضرورت پوری کرنے اور آسائش حاصل کرنے کا ذریعہ تھا، وہ اس کے لیے اصل مطلوب بن گیا۔ اب وہ اسی کو جمع کرنے اور گن گن کر رکھنے کی دھن میں لگا ہوا ہے۔