یہ سورت قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے، مگر نہایت جامع سورت ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ ”مفتاح دارالسعادۃ“ میں فرماتے ہیں کہ شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”اگر لوگ اس سورت میں غور و فکر کریں تو یہی ان کے لیے کافی ہے۔“
(آیت 1تا3) ➊ وَ الْعَصْرِ (1) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ …: قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو قسموں کے بعد مذکور ہوتا ہے۔ اس سورت کا مفہوم سمجھنے کے لیے خسارے کا مفہوم ذہن میں لانا ضروری ہے۔ خسارہ یا نفع کسی نہ کسی تجارت اور بیع میں ہوتا ہے جس میں آدمی اپنا رأس المال (سرمایہ) لگاتا ہے، اگر رأس المال فروخت ہو جائے اور رأس المال اور محنت سے بڑھ کر آمدنی ہو جائے تو یہ نفع ہے، ورنہ خسارہ۔ اس سورت میں زمانے کی قسم کھا کر یہ حقیقت مدلل کی گئی ہے کہ چار صفات والے لوگوں کو چھوڑ کر ہر انسان ہی خسارے میں ہے، کیونکہ انسان کے پاس رأس المال صرف اور صرف زمانے کا کچھ حصہ یعنی اس کی عمر ہے، جیساکہ فرمایا: «اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ» [ فاطر: ۳۷ ]”اور کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی کہ اس میں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا حاصل کر لیتا اور تمھارے پاس خاص ڈرانے والا بھی آیا۔“ اور یہ سرمایہ ایسا ہے جو بہت تیزی سے خود بخود ختم ہو رہا ہے، اگر ختم ہونے سے پہلے پہلے اس سے قیمتی چیز، یعنی وہ چاروں صفات حاصل کر لیں تو نفع ہے ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ جس طرح برف بیچنے والا اس کے پگھلنے سے پہلے پہلے اسے فروخت کر لے اور اس کی اچھی قیمت حاصل کر لے تو نفع ہے، ورنہ برف اس کا انتظار نہیں کرے گی بلکہ کچھ دیر کے بعد خود بخود تحلیل ہو جائے گی، پھر اس کے خسارے میں کیا شک ہے؟
➋ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ: حقیقت یہ ہے کہ انسان کا خسارے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، کیونکہ خسارہ رأس المال ضائع کرنے کا نام ہے اور انسان کا رأس المال عمر ہے اور ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی عمر ضائع نہ کر رہا ہو، کیونکہ آدمی پر جو گھڑی گزرتی ہے اگر اللہ کی نافرمانی میں گزری تو خسارے میں کوئی شک ہی نہیں، اگر مباح اور جائز کاموں میں گزری پھر بھی خسارہ ہے، کیونکہ اس گھڑی سے آدمی آخرت کے لیے کچھ حاصل نہ کر سکا اور اگر اطاعت اور نیکی میں گزری تو یہی نیکی اس سے بہتر طریقے پر یا اس سے بہتر کوئی اور نیکی بھی کر سکتا تھا، کیونکہ نیکی کے درجات کی کوئی انتہا نہیں اور اللہ کے جلال و قہر کے مراتب کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اب جس قدر کسی شخص کو ان درجات کا علم ہوگا، ان پر عمل کرے گا اور دوسروںکو ان کی تعلیم دے گا اور خود صبر اور دوسروں کو صبر کی تلقین کرے گا، تو اسی قدر خسارہ کم ہوتا جائے گا، ورنہ اعلیٰ درجے کو چھوڑ کر ادنیٰ درجے پر اکتفا تو ایک قسم کا خسارہ ہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان کسی نہ کسی قسم کے خسارے سے ضرور ہی دو چار رہتا ہے۔ (خلاصہ از رازی)
➌ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: بعض لوگوں نے اس سورت سے ثابت کیا ہے کہ اعمال ایمان سے الگ ہیں، اس میں داخل نہیں ہیں، وہ نہ ہوں تب بھی ایمان کامل ہے، کیونکہ دونوں کو عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں، بلکہ ایمان دل، زبان اور ارکان تینوں کے اعمال کا نام ہے۔ اگر عطف کی وجہ سے یہ دونوں الگ الگ ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ حق کی وصیت عمل صالح میں شامل نہیں، بلکہ عمل صالح سے الگ کوئی چیز ہے۔ اسی طرح صبر کی وصیت حق کی وصیت اور عمل صالح دونوں سے الگ کوئی چیز ہے، جب کہ یہ تینوں باتیں ہی درست نہیں۔ حق یہ ہے کہ ایمان کے بعد عمل صالح کو الگ اس لیے ذکر کیا کہ ایمان کے اس جز کو کوئی شخص معمولی سمجھ کر اس سے بے اعتنائی نہ کر بیٹھے اور عمل صالح میں سے حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کو الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ کوئی شخص اپنی ذات کی حد تک عمل صالح کرکے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ میں اب خسارے سے محفوظ ہوں۔ نہیں، بلکہ اسے یہ علم و عمل اور اس پر صبر دوسروں کو بھی سکھانا ہوگا۔
➍ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ: خسارے سے بچنے کے لیے عمل سے خالی ایمان کافی نہیں اور نہ صرف خود عمل کرلینا کافی ہے، بلکہ ایک دوسرے کو حق بات کی تاکید کرنا بھی ضروری ہے۔ حق سے مراد وہ ہدایت ہے جو وحی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، جس میں قرآن و حدیث دونوں شامل ہیں۔ پھر ان تینوں چیزوں یعنی حق پر ایمان لانے، اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں بے شمار مصائب و تکالیف پیش آسکتی ہیں، ان پر خود صبر کرنا ہوگا اور تمام مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کریں۔یہاں ” تَوَاصَوْا “(ایک دوسرے کو وصیت کریں) فرمایا ہے، ”أَوْصَوْا“(وصیت کریں) نہیں فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ سب مسلمان ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ چند آدمیوں کے ادا کرنے سے یہ فرض ادا نہیں ہوتا۔
➎ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ: صبر کا معنی باندھنا اور روکنا ہے۔ یہ تین قسم کا ہے: (1) حق پر صبر اور اس کی مسلسل پابندی، مثلاً توحید، اتباع سنت اور نماز روزہ پر پابند رہنا۔ (2) برائی سے صبر، مثلاً شرک، زنا، قتلِ ناحق اور جھوٹ وغیرہ سے صبر۔ (3) مصیبت پر صبر اور ہر قسم کے جزع فزع سے پرہیز۔