(آیت 4)يَوْمَ يَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ:”اَلْفَرَاشُ“ اسم جنس ہے، مفرد کے لیے ”فَرَاشَةٌ“ آتا ہے، پروانے۔ یعنی جس طرح پروانے بے شمار تعداد میں ایک دوسرے کے گرد اڑتے، گھومتے اور آپس میں ٹکراتے ہوئے آگ کی طرف تیزی سے جا رہے ہوتے ہیں اسی طرح سب لوگ ایسی ہی پریشانی اور تیزی کے ساتھ میدان محشر میں بلانے والے کی طرف جائیں گے، جیساکہ فرمایا: «خُشَّعًا اَبْصَارُهُمْ يَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ كَاَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ (7) مُّهْطِعِيْنَ اِلَى الدَّاعِ» [ القمر: 8،7 ]”ان کی نظریں جھکی ہوں گی، وہ قبروں سے نکلیں گے جیسے وہ پھیلی ہوئی ٹڈیاں ہوں۔ پکارنے والے کی طرف گردن اٹھا کر دوڑنے والے ہوں گے۔“ اور فرمایا: «مُهْطِعِيْنَ مُقْنِعِيْ رُءُوْسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَ اَفْـِٕدَتُهُمْ هَوَآءٌ»[ إبراہیم: ۴۳ ]”اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔“ اور فرمایا: «يَوْمَىِٕذٍ يَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهٗ» [ طٰہٰ: ۱۰۸ ]”اس دن وہ پکارنے والے کا پیچھا کریں گے، جس کے لیے کوئی کجی نہ ہوگی۔“ اور وہاں پہنچ کر بھی انھیں قرار نہیں ہوگا، بلکہ اسی طرح بے قرار و بے تاب بھاگتے پھریں گے، فرمایا: «يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ … لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ»[ عبس: ۳۴ تا ۳۷ ]”جس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا … اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔“