اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے، راجح یہی ہے کہ یہ مکی ہے۔ اس میں شواہد کے ساتھ انسان کا ناشکرا ہونا اور بخیل و حریص ہونا بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی قیامت کا تذکرہ ہے۔
(آیت 1) وَ الْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا: ” الْعٰدِيٰتِ “”عَدَا يَعْدُوْا عَدْوًا“(ن)(دوڑنا) سے اسم فاعل ہے، دوڑنے والے۔ ”ضَبْحٌ“ اس آواز کو کہتے ہیں جو گھوڑے کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس کے جوف سے نکلتی ہے، جو نہ سانس کی آواز ہوتی ہے اور نہ ہنہنانے کی، اس لیے اس کا معنی ” ہانپ کر“ کرنا محل نظر ہے۔ آیت میں اگرچہ گھوڑوں کا لفظ نہیں، مگر لغت عرب میں” ضَبْحٌ“ کا لفظ گھوڑے کے لیے آتا ہے یا کتے کے لیے، کیونکہ یہ مخصوص آواز انھی دو جانوروں سے نکلتی ہے۔ اس جگہ کتے مراد ہو ہی نہیں سکتے، اس لیے گھوڑے ہی مراد ہیں۔ یہاں تیز دوڑنے والے گھوڑوں کو بطور شاہد پیش کیا گیا ہے، وہ گھوڑے مسلمانوں کے ہوں یا کافروں کے، انھیں غازیوں کے ساتھ مخصوص بھی نہیں کیا گیا، کیونکہ مقصد گھوڑوں کی فضیلت بیان کرنا نہیں بلکہ انھیں آئندہ آنے والے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کرنا ہے۔