(آیت 6) يَوْمَىِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ: ” يَصْدُرُ “ واپس لوٹیں گے، یعنی پہلے قبروں میں گئے تھے، اب وہاں سے حساب کے لیے میدانِ محشر میں اللہ کے حضور واپس لوٹیں گے، جیسا کہ فرمایا: «ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ» [ البقرۃ: ۲۸ ]”پھر وہ تمھیں مارے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“” اَشْتَاتًا “”شَتٌّ“ کی جمع ہے، الگ الگ۔” لِيُرَوْا “”أَرٰي يُرِيْ إِرَاءَةً “(افعال) سے مضارع مجہول ہے، تاکہ وہ دکھائے جائیں اپنے عمل۔ ” لِيُرَوْا “ میں ضمیر نائب فاعل ہے اور ” اَعْمَالَهُمْ “ مفعول ثانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اکیلا اکیلا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے لیے پیش ہوگا، اس کا قبیلہ، اس کی جماعت اور دوست احباب کوئی ساتھ نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا: «وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ» [ الأنعام: ۹۴ ]”اور یقینا تم ہمارے پاس اس طرح اکیلے آئے ہو جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔“ الگ الگ ہو کر اس لیے لوٹیں گے کہ ہر ایک کو اس کے اعمال دکھائے جائیں، جیساکہ فرمایا: «اِقْرَاْ كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا» [ بني إسرائیل: ۱۴ ]”اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔“ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ الگ الگ گروہ کی شکل میں میدان محشر کی طرف روانہ ہوں گے، اگرچہ اللہ تعالیٰ کے حضور فرداً فرداً پیش ہوں گے، جیسا کہ فرمایا: «وَ يَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ» [ النمل: ۸۳ ]”اور جس دن ہم ہر امت میں ایک گروہ ان لوگوں کا اکٹھا کریں گے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے، پھر ان کی جدا جدا قسمیں بنائی جائیں گی۔“