(آیت 8،7)اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ …: جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لائے اور انھوں نے صالح اعمال کیے ان کے لیے تین بڑی بڑی بشارتیں ہیں، پہلی یہ کہ وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں، کیونکہ اپنے اختیار سے گناہ چھوڑ کر ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کا درجہ یقینا ان لوگوں سے بلند ہے جن میں نافرمانی کی استعداد ہی نہیں، دوسری یہ کہ ان کے لیے ہمیشہ رہنے کے لیے باغات ہیں، جن کے تلے نہریں بہتی ہیں اور تیسری یہ کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی جو آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے، فرمایا: «وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ»[ التوبۃ: ۷۲ ]”اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے۔“”اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے“ یعنی بے شمار نعمتوں کے بعد بھی اگر ان کا دل ہی خوش نہ ہوا تو کیا فائدہ؟ یہ نعمتیں اس کے لیے ہیں جو اپنے رب سے ڈر گیا۔ خالی بے روح کلمہ پڑھنے، بلا خشیت نماز اور بوجھل دل کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنے اور بطور رسم عبادات ادا کرنے سے یہ مرتبہ نہیں ملتا، بلکہ اس کا مدار اللہ کے ڈر پر ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ»[ الرحمٰن: ۴۶ ]”اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں۔“