انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: [ إِنَّ اللّٰهَ أَمَرَنِيْ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ: «لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا» قَالَ وَسَمَّانِيْ؟ قَالَ نَعَمْ، فَبَكٰی][بخاري، التفسیر، سورۃ: «لم یکن»: ۴۹۵۹ ]”اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ” لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ پڑھ کر سناؤں۔“ اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اور کیا اللہ نے میرا نام بھی لیا ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”ہاں!“ تو اُبی رضی اللہ عنہ (یہ سن کر خوشی سے) رونے لگے۔“
(آیت 1)لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا …: ” مُنْفَكِّيْنَ “”فَكَّ يَفُكُّ فَكًّا“(ن)”اَلشَّيْءَ“ کسی چیز کو دوسری سے جدا کرنا، ”اَلْعُقْدَةَ“ گرہ کھولنا اور ”اَلْخَتَمَ“ مہر توڑنا۔ ”اِنْفَكَّ يَنْفَكُّ“(انفعال) ایک چیز کا دوسری چیز سے الگ ہونا جس کے ساتھ وہ خوب جڑی ہوئی تھی، جیسے ”اِنْفَكَّ الْعَظْمُ“”ہڈی اپنے جوڑ سے الگ ہو گئی۔“” مُنْفَكِّيْنَ “ اسم فاعل ہے، (اپنے کفر سے) باز آنے والے، الگ ہونے والے۔یعنی پیغمبر آخرالزماں اور قرآن بھیجنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) اور مشرکینِ عرب کو راہِ حق پر لایا جائے، کیونکہ یہ لوگ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ ان کا راہ حق پر آنا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ ایک پیغمبر آئے جو ایک مقدس آسمانی کتاب لائے جس میں عمدہ و دل نشین مضامین ہوں اور وہ انھیں پڑھ کر سنائے، کسی حکیم یا صوفی یا عادل بادشاہ کے بس کی بات نہ تھی کہ انھیں راہِ راست پر لے آتا۔ (اشرف الحواشی)