(آیت 4) ➊ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا …:” الرُّوْحُ “ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ» [الشعراء: ۱۹۳]”یہ قرآن روح الامین لے کر اترے ہیں۔“ ملائکہ میں شامل ہونے کے باوجود ان کے شرف کی وجہ سے ان کا الگ ذکر فرمایا، جس طرح سورۂ بقرہ کی اس آیت میں فرشتوں کے ذکر کے بعد ان کے شرف کی وجہ سے ان کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا: «مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ»[البقرۃ: ۹۸]”جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔“
➋ یعنی ملائکہ اور جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر امر کے متعلق آئندہ سال میں جو کچھ ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے وہ لے کر زمین پر اترتے ہیں۔