یہ قرآن مجید کی پہلی وحی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ایک لمبی حدیث میں وحی کے آغاز کا ذکر ہے کہ وہ سچے خوابوں سے ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں کئی کئی راتیں خلوت اختیار کرنے لگے۔ وہیں آپ کے پاس فرشتہ آیا اور آپ سے کہا: [ اِقْرَأْ ]”پڑھ۔“ آپ نے کہا: [ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ]”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ جبریل علیہ السلام نے آپ کو زور سے دبایا اور پھر وہی لفظ ”اِقْرَأْ“ کہا۔ آپ وہی جواب ”مَا أَنَا بِقَارِئٍ “ دیتے رہے۔ تیسری دفعہ زور سے دبانے کے بعد فرشتے نے کہا: «اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ (1) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ (3) الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ» [ العلق: ۱تا۵ ][ دیکھیے بخاري، التفسیر، باب: ۴۹۵۳ ]
(آیت 1) ➊ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ: پہلی وحی میں پڑھنے کا حکم دینے سے پڑھنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دیتے وقت اپنے رب ہونے اور پیدا کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا، کیونکہ سب سے پہلی اور بڑی نعمت پیدا کرنا ہے، باقی تمام نعمتیں اس کے بعد ہیں، خلق ہی نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ دوسری نعمت رب ہونا، یعنی پرورش کرنا ہے۔ یعنی ان نعمتوں والی ہستی کے نام کی برکت سے پڑھ، اس کی برکت سے تو قاری بھی بن جائے گا۔
➌ ” الَّذِيْ خَلَقَ “(جس نے پیدا کیا) کا مفعول حذف کر دیا گیا ہے کہ کسے پیدا کیا؟ یعنی جب پیدا کرنا اسی کا کام ہے، تو پھر یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کسے پیدا کیا۔