(آیت 3،2)وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ …: بوجھ اتار دینے سے مراد وحی الٰہی برداشت کرنے کی استعداد پیدا کرنا ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا»[ المزمل: ۵ ]”یقینا ہم تجھ پر ایک بھاری بات نازل کریں گے۔“ حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی تو اس کے بوجھ سے وہ اونٹنی جس پر آپ سوار ہوتے بیٹھ جاتی۔ [مسند أحمد: 118/6، ح: ۲۴۸۶۸، سندہ صحیح ] اس کے علاوہ نبوت کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی مراد ہے، جسے آپ بہت شدت سے محسوس کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا: «لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ» [ الشعراء: ۳ ]”شاید آپ اپنے آپ کو اس لیے ہلاک کر لیں گے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔“ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر یہ بوجھ بھی اتار دیا: «لَيْسَ عَلَيْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ» [ البقرۃ: ۲۷۲ ]”تیرے ذمے انھیں ہدایت دینا نہیں اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“