(آیت 5)وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا: ”بَنٰي يَبْنِيْ بِنَاءً“(ض) بنانا۔ واضح رہے کہ عام طور پر ”مَنْ“ علم والوں، مثلاً اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور انسانوں کے لیے آتا ہے، جبکہ”مَا“ ان کے علاوہ کے لیے آتا ہے، مگر بعض اوقات کسی خاص مقصد کی وجہ سے اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے اور ”مَا“ علم والوں کے لیے بھی آجاتا ہے، جیسا کہ ” مَا “ یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا! یہاں ”مَنْ“ کے بجائے ” مَا “ اس لیے لایا گیا ہے کہ وہ یہاں ”اَلَّذِيْ“ کے معنی میں ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں ” مَا “ کا لفظ علم والوں کے لیے متعدد مقامات پر آیا ہے، مثلاً: «وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ»[ الکافرون: ۳ ]”اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔“ اور فرمایا: «فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ» [ النساء: ۳ ]”سو عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔“