(آیت 1)وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا: پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جوابِ قسم یہ ہے کہ ”جس شخص نے اپنے نفس کوپاک کر لیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ “ ان قسموں اور جواب قسم کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا: «هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا» [ البقرۃ: ۲۹ ]”وہ ذات کہ زمین میں جو کچھ ہے اس نے سب تمھارے لیے پیدا فرمایا۔“ حتیٰ کہ آسمان کی چھت، زمین کا فرش، سورج اور اس کی دھوپ، اس کے بعد چاند اور اس کی چاندنی اور دن کو آفتاب کا اُجالا، پھر رات کا اس کو ڈھانپ لینا اسی کے فائدے کے لیے ہے، فرمایا: «وَ سَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىِٕبَيْنِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ» [ إبراہیم: ۳۳ ]”اور اس نے تمھارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا جو مسلسل چلنے والے ہیں اور تمھارے لیے رات اور دن کو مسخر کر دیا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور نفس انسانی کو بہترین شکل و صورت میں بنا کر اسے نیکی اور بدی کی پہچان بھی کرا دی۔ ہر آدمی ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور شعور سے محسوس کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان عظیم الشان مخلوقات کو اور ان کے خالق کے احسانات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو کفر و شرک اور ظلم و زیادتی سے پاک کر لیتا ہے یقینا وہ اپنا مقصد تخلیق پورا کر دینے کی وجہ سے کامیاب ہے اور جو شخص ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کرکے اپنے نفس کو شہوت، غضب اور شرک و کفر کے کیچڑ میں دبا دیتا ہے وہ ناکام ہے۔