(آیت 1تا4)لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ …: قسم سے پہلے ” لَا “(نہیں) فرما کر ان لوگوں کی بات کی نفی کی گئی ہے جو قسم کے بعد آنے والی بات کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چند قسموں کے بعد فرمایا، یقینا ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے، اگر وہ سمجھے کہ میں دنیا میں عیش و آرام کے لیے آیا ہوں تو اس کا خیال غلط ہے۔ اس حقیقت کا یقین دلانے کے لیے پہلی قسم شہر مکہ کی کھائی، جو اس دعوے کی دلیل بھی ہے، کیونکہ اس شہر کی آبادی کی ابتدا، اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کی زندگی، ان کے بعد کی تاریخ، خصوصاً اس شہر میں رہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی، آپ کی یتیمی اور بے سروسامانی، نبوت کی ذمہ داری کے بعد اپنی ہی قوم کا جان لینے کے درپے ہوجانا، یہ سب چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ انسان یقینا مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جننے والے ماں باپ اور ان کے جنم دیے ہوئے بچے کی قسم ہے۔ ماں باپ کو اولاد کے حصول کی جستجو سے لے کر ان کی پرورش تک جن مصائب سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کے جنم دیے ہوئے بچے پر نطفہ ہونے سے لے کر ولادت تک پھر ولادت سے بچپن، جوانی اور بڑھاپے تک جو کچھ گزرتا ہے، وہ سب کچھ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے۔ اس تمام عرصے میں وہ شروع سے آخر تک سختیاں اور مصیبتیں ہی جھیلتا رہتا ہے، کبھی بیماری میں گرفتار ہے، کبھی رنج میں، کبھی فقر و فاقہ میں، کبھی کسی اور فکر میں۔ اگر کبھی کسی خوشی یا راحت کا کوئی لمحہ آتا بھی ہے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور ہوتی ہے، کوئی اور نہ ہو تو اس کے زوال کی فکر ہی اسے مکدر کرنے کے لیے کافی ہے۔