مفسرین نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ «كَمَا أَخْرَجَكَ» میں «كَمَا» کے آنے کا کیا سبب ہے۔ بعض نے کہا کہ آیت زیر ذکر میں تشبیہہ دی گئی ہے، مومنین کے باہمی صلح ساتھ ان کے ارتقاب اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔
ایک مطلب تو اس کا یہ ہے کہ جیسے تم نے مال غنیمت میں اختلاف کیا آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے نبی کو اس کی تقسیم کا اختیار دے دیا اور اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اسے تم میں بانٹ دیا درحقیقت تمہارے لیے اسی میں بھلائی تھی اسی طرح اس نے باوجود تمہاری اس چاہت کے کہ قریش کا تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے اور جنگی جماعت سے مقابلہ نہ ہو اس نے تمہارا مقابلہ بغیر کسی وعدے کے ایک پر شکوہ جماعت سے کرا دیا اور تمہیں اس پر غالب کر دیا کہ اللہ کی بات بلند ہو جائے اور تمہیں فتح، نصرت، غلبہ اور شان شوکت عطا ہو۔ جیسے فرمان ہے آیت «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [ 2-البقرة: 216 ] ، یعنی ” تم پر جہاد فرض کیا گیا حالانکہ تم اسے برا جانتے ہو بہت ممکن ہے کہ ایک چیز کو اپنے حق میں اچھی نہ جانو اور درحقیقت وہی تمہارے حق میں بہتر ہو اور حق میں وہ بد تر ہو۔ دراصل حقائق کا علم اللہ ہی کو ہے تم محض بےعلم ہو۔ “
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جیسے مومنوں کے ایک گروہ کی چاہت کے خلاف تجھے تیرے رب نے شہر سے باہر لڑائی کیلئے نکالا اور نتیجہ اسی کا اچھا ہوا ایسے ہی جو لوگ جہاد کیلئے نکلنا بوجھ سمجھ رہے ہیں دراصل یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال غنیمت میں ان کا اختلاف بالکل بدر والے دن کے اختلاف کے مشابہ تھا۔ کہنے لگے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قافلے کا فرمایا تھا لشکر کا نہیں ہم جنگی تیاری کر کے نکلے ہی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے اسی ارادے سے نکلے تھے کہ ابوسفیان کے اس قافلے کو روکیں جو شام سے مدینہ کو قریشیوں کے بہت سے مال اسباب لے کر آ رہا تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تیار کیا اور تین سو دس سے کچھ اوپر لوگوں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے چلے اور سمندر کے کنارے کے راستے کی طرف سے بدر کے مقام سے چلے۔ ابوسفیان کو چونکہ آپ کے نکلنے کی خبر پہنچ چکی تھی اس نے اپنا راستہ بدل دیا اور ایک تیز رو قاصد کو مکے دوڑایا۔ وہاں سے قریش قریب ایک ہزار کے لشکر جرار لے کر لوہے میں ڈوبے ہوئے بدر کے میدان میں پہنچ گئے پس یہ دونوں جماعتیں ٹکرا گئیں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حق کو فتح دلوائی اپنا دین بلند کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اسلام کو کفر پر غالب کیا جیسے کہ اب بیان ہو گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
یہاں مقصد بیان صرف اتنا ہی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ چلا کہ مشرکین کی جنگی مہم مکے سے آ رہی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ سے بذریعہ وحی کے وعدہ کیا کہ یا تو قافلہ آپ کو ملے گا یا لشکر کفار۔ اکثر مسلمان جی سے چاہتے تھے کہ قافلہ مل جائے کیونکہ یہ نسبتاً ہلکی چیز تھی لیکن اللہ کا ارادہ تھا کہ اسی وقت بغیر زیادہ تیاری اور اہتمام کے اور آپس کے قول قرار کے مڈبھیڑ ہو جائے اور حق وباطل کی تمیز ہو جائے کفار کی ہمت ٹوٹ جائے اور دین حق نکھر آئے۔
تفسیر ابن مردویہ میں ہے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ مدینے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ ابوسفیان کا قافلہ لوٹ رہا ہے تو کیا تم اس کے لیے تیار ہو کہ ہم اس قافلے کی طرف بڑھیں؟ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال غنیمت دلوا دے۔ ہم سب نے تیاری ظاہر کی آپ ہمیں لے کر چلے ایک دن یا دو دن کا سفر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ قریشیوں سے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہیں تمہارے چلنے کا علم ہو گیا ہے اور وہ تم سے لڑنے کیلئے چل پڑے ہیں۔
ہم نے جواب دیا کہ واللہ ہم میں ان سے مقابلے کی طاقت نہیں ہم تو صرف قافلے کے ارادے سے نکلے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی سوال کیا اور ہم نے پھر یہی جواب دیا۔ اب مقداد بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس وقت آپ کو وہ نہ کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ تو اور تیرا رب جا کر کافروں سے لڑے، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب تو ہمیں بڑا ہی رنج ہونے لگا کہ کاش یہی جواب ہم بھی دیتے تو ہمیں مال کے ملنے سے اچھا تھا، پس یہ آیت «كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ»[8-الأنفال:5] اتری۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ بدر کی جانب چلتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روحا میں پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ہمیں بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ فلاں فلاں جگہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر خطبہ دیا اور یہی فرمایا اب کی مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہی جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسرے خطبے میں یہی فرمایا اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے دریافت فرما رہے ہیں؟ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت وبزرگی عنایت فرمائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے نہ میں ان راستوں میں کبھی چلا ہوں اور نہ مجھے اس لشکر کا علم ہے ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ برک غماد تک بھی چڑھائی کریں تو واللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوں گے ہم ان کی طرح نہیں جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہدیا تھا کہ «فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ»[ 5-المائدہ: 24 ] یعنی ” تو اپنے ساتھ اپنے پروردگار کو لے کر چلا جا اور تم دونوں ان سے لڑ لو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔“
نہیں نہیں بلکہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ آپ کا ساتھ دے ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر حکم کفار سے جہاد کے لیے صدق دل سے تیار ہیں۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گو آپ کسی کام کو زیر نظر رکھ رکھ نکلے ہوں لیکن اس وقت کوئی اور نیا کام پیش نگاہ ہو تو «بِسْمِ اللَّـهِ» کیجئے، ہم تابعداری سے منہ پھیرنے والے نہیں۔ آپ جس سے چاہیں ناطہٰ توڑ لیجئے اور جس سے چاہیں جوڑ لیجئے جس سے چاہیں عداوت کیجئے اور جس سے چاہیں محبت کیجئے ہم اسی میں آپ کے ساتھ ہیں۔ یا رسول اللہ ہماری جانوں کے ساتھ ہمارے مال بھی حاضر ہیں، آپ کو جس قدر ضرورت ہو لیجئے اور کام میں لگائیے۔ پس سعد کے اس فرمان پر قران کی یہ آیتیں اتری ہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15724:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن سے بدر میں جنگ کرنے کی بابت صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور سعد بن عباد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کو کمر بندی کا حکم دے دیا اس وقت بعض مسلمانوں کو یہ ذرا گراں گذرا اس پر یہ آیتیں اتریں۔
پس حق میں جھگڑنے سے مراد جہاد میں اختلاف کرنا ہے اور مشرکوں کے لشکر سے مڈبھیڑ ہونے اور ان کی طرف چلنے کو ناپسند کرنا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے واضح ہو گیا یعنی یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بغیر حکم رب العزت کے کوئی حکم نہیں دیتے۔
دوسری تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد مشرک لوگ ہیں جو حق میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اسلام کا ماننا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسے دیکھتے ہوئے موت کے منہ میں کودنا۔ یہ وصف مشرکوں کے سوا اور کسی کا نہیں اہل کفر کی پہلی علامت یہی ہے ابن زید کا یہ قول وارد کر کے امام ابن جرید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول بالکل بے معنی ہے اس لیے کہ اس سے پہلے کا قول آیت «يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُونَ»[ 8-الانفال: 6 ] اہل ایمان کی خبر ہے تو اس سے متصل خبر بھی انہی کی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن اسحاق رحمہ اللہ ہی کا قول اس بارے میں ٹھیک ہے کہ یہ خبر مومنوں کی ہے نہ کہ کافروں کی۔ حق بات یہی ہے جو امام صاحب نے کہی۔ سیاق کلام کی دلالت بھی اسی پر ہے ـ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مسند احمد میں ہے کہ بدر کی لڑائی کی فتح کے بعد بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اب چلئے قافلے کو بھی دبالیں اب کوئی روک نہیں ہے۔ اس وقت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کفار سے قید ہو کر آئے ہوئے زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اونچی آواز سے کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیوں؟ انہوں نے جواب دیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا وہ اللہ نے پورا کیا ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی۔ [سنن ترمذي:3080،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسلمانوں کی چاہت تھی کہ لڑائی والے گروہ سے تو مڈبھیڑ نہ ہو البتہ قافلے والے مل جائیں اور اللہ کی چاہت تھی کہ شوکت و شان والی قوت و گھمنڈوالی لڑائی بھڑائی والی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ان پر تمہیں غالب کر کے تمہاری مدد کرے، اپنے دین کو ظاہر کر دے اور اپنے کلمے کو بلند کر دے اور اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر اونچا کر دے پس انجام کی بھلائی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ اپنی عمدہ تدبیر سے تمہیں سنبھال رہا ہے تمہاری مرضی کے خلاف کرتا ہے اور اسی میں تمہاری مصلحت اور بھلائی ہوتی ہے جیسے فرمایا کہ «كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»[2-البقرة:216] ” جہاد تم پر لکھا گیا اور وہ تمہیں ناپسند ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ تمہاری ناپسندیدگی کی چیز میں ہی انجام کے لحاظ سے تمہارے لیے بہتری ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ درحقیقت تمہارے حق میں بری ہو۔“
اب جنگ بدر کا مختصر سا واقعہ بزبان سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سنئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ ابوسفیان شام سے مع قافلے کے اور مع اسباب کے آ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو فرمایا کہ چلو ان کا راستہ روکو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہ اسباب تمہیں دلوا دے۔ چونکہ کسی لڑانے والی جماعت سے لڑائی کرنے کا خیال بھی نہ تھا، اس لیے لوگ بغیر کسی خاص تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے۔
ابوسفیان بھی غافل نہ تھا اس نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے اور آتے جاتوں سے بھی دریافت حال کر رہا تھا ایک قافلے سے اسے معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر تیرے اور تیرے قافلے کی طرف چل پڑے ہیں۔
اس نے ضیغم بن عمرو غفاری کو انعام دے دلا کر اسی وقت قریش مکہ کے پاس یہ پیغام دے کر روانہ کیا کہ تمہارے مال خطرے میں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے اس طرف آ رہے ہیں تمہیں چاہیئے کہ پوری تیاری سے فوراً ہماری مدد کو آؤ اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کر خبر دی تو قریشیوں نے زبردست حملے کی تیار کر لی اور نکل کھڑے ہوئے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ذفران وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لشکروں کا سازو سامان سے نکلنا معلوم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور یہ خبر بھی کر دی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر جواب دیا اور بہت اچھا کہا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے بھی معقول جواب دیا۔ پھر مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے انجام دیجئیے ہم جان و مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اور ہر طرح فرمانبردار ہیں ہم بنو اسرائیل کی طرح نہیں کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب جا کر لڑ لو ہم تماشا دیکھتے ہیں نہیں بلکہ ہمارا یہ قول ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ چلئے جنگ کیجئے ہم آپکے ساتھ ہیں اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ برک غماد تک یعنی حبشہ کے ملک تک بھی چلیں تو ہم ساتھ سے منہ نہ موڑیں گے اور وہاں پہنچائے اور پہنچے بغیر کسی طرح نہ رہیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت اچھا کہا اور ان کو بڑی دعائیں دیں لیکن پھر بھی یہی فرماتے رہے کہ لوگو مجھے مشورہ دو میری بات کا جواب دو۔ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انصاریوں کے گروہ سے تھی ایک تو اس لیے کہ گنتی میں یہی زیادہ تھے۔
دوسرے اس لیے بھی کہ عقبہ میں جب انصار نے بیعت کی تھی تو اس بات پر کی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے نکل کر مدینے میں پہنچ جائیں پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں جو بھی دشمن آپ پر چڑھائی کر کے آئے ہم اس کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائیں گے اس میں چونکہ یہ وعدہ نہ تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی پر چڑھ کر جائیں تو بھی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ اب ان کا ارادہ معلوم کر لیں۔
یہ سمجھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جواب طلب فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہی بات ہے تو سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا جانتے ہیں اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اسے بھی حق مانتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سننے اور اس پر عمل کرنے کی بیعت کر چکے ہیں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم اللہ تعالیٰ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا ہے اسے پورا کیجئے، ہم آپ کی ہمرکابی سے نہ ہٹیں گے۔
اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو اپنا سچا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ اگر سمندر کے کنارے پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں گھوڑا ڈال دیں تو ہم بھی بلا تامل اس میں کود پڑیں گے ہم میں سے ایک کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ پائیں گے جسے ذرا سا بھی تامل ہو ہم اس پر بخوشی رضامند ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دشمنوں کے مقابلے پر چھوڑ دیں۔
ہم لڑائیوں میں بہادری کرنے والے مصیبت کے جھیلنے والے اور دشمن کے دل پر سکہ جما دینے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے کام دیکھ کر ان شاءاللہ خوش ہوں گے چلئے اللہ کا نام لے کر چڑھائی کیجئے اللہ برکت دے۔ ان کے اس جواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی مسرور ہوئے اسی وقت کوچ کا حکم دیا کہ چلو اللہ کی برکت پر خوش ہو جاؤ۔ رب مجھ سے وعدہ کر چکا ہے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت ہمارے ہاتھ لگے گی واللہ میں تو ان لوگوں کے گرنے کی جگہ ابھی یہیں سے گویا اپنی آنکھوں دیکھ رہا ہوں۔[تفسیر ابن جریر الطبری:15732]